25 جولائی 2018 کو شفاف انتخابات پورے ملک میں ہوں گے۔ مملکت میں عام انتخابات پر مخصوص سیاسی جماعتوں کے علاوہ اکثریتی سیاسی پارٹیوں کو شدید تحفظات ہیں۔ ملک گیر صورتحال پر سیر، سواسیر حاصل تبصرے اور تجزیے اس بہتات کے ساتھ ووٹرز کے دماغوں میں ٹھونسے گئے ہیں جس کے بعد امید کی جارہی ہے کہ اگلی بار یوم آزادی کی تقریبات 14 اگست کے بجائے نیا پاکستان بننے کی خوشی میں 25جولائی کو منائی جائیں گی۔ سیاسی پنڈت تو کہتے ہیں کہ فیصلہ تو لکھا جاچکا، صرف سنانا باقی باقی ہے۔ جیسا کہ آج کل ہر اہم مقدمے کے فیصلے میں ہوتا ہے کہ فیصلہ تو لکھ لیا جاتا ہے لیکن سنایا بعد میں جاتا ہے۔ میں عام انتخابات کے حوالے سے اپنے تحفظات، مضمرات اور اثرات پر انہی صفحات پر لکھ چکا ہوں۔ عام انتخابات میں محض ایک دن اور نتائج آنے میں دو دن لگیں گے، لیکن یہاں میں ایک ایسے نکتے کی نشان دہی کرانا چاہتا ہوں، جس کے متعلق بہت کم لکھا گیا ہے جب کہ میرا خیال ہے کہ لکھا ہی نہیں گیا۔ ہوسکتا ہے کہ لکھا گیا ہو لیکن میری نظروں سے نہیں گزرا۔ بہرحال میرے اظہاریے کا مقصد عام انتخابات کی شفافیت پر اپنے تحفظات کو ریکارڈ پر لانا ہے۔
میں خاص طور پر کنگ میکر کراچی کا ذکر کروں گا، یہ وہ شہر ہے جو ہمیشہ مرکزی حکومت سازی میں اہم کردار ادا کرتا رہا ہے۔ اس بار بھی کراچی وفاق میں حکومت سازی کے لیے ایک نئے کردار کے ساتھ سامنے آئے گا۔ اب کنگ میکر کون ہوگا، اس حوالے سے قیاس آرائی ہی کی جاسکتی ہے، تاہم میرا تجربہ کہتا ہے کہ کراچی کی حلقہ بندیاں جس نے بھی جس سوچ کے ساتھ کیں، اس سوچ کو ناکامی کا سامنا ہوسکتا ہے۔ حیرت انگیز طور پر کراچی کے ایک کروڑ سے زائد شہریوں کو ہی لاپتا کردینا اور مردم شماری میں شہر کی آبادی کو کم ظاہر کرکے جو مقاصد حاصل کرنے کی کوشش کی گئی، اس کی کامیابی کے امکانات کم نظر آتے ہیں۔ لیکن کامیابی یہاں اس حوالے سے ضرور ہے کہ کراچی کی آبادی کم کرکے صوبائی اور قومی اسمبلی کی نشستوں میں اضافے کو روک دیا گیا، جس سے اہل کراچی کو پہلا بڑا سیاسی نقصان پہنچا۔ جس پر قریباً تمام سیاسی جماعتوں کی خاموشی معنی خیز رہی اور کراچی کی آبادی کو کم ظاہر کرنے اور پارلیمانی نشستوں کی کمی کو لسانی جماعت کی سیاست سے جوڑ کر اہل کراچی کے ساتھ ناانصافی کی گئی ہے۔
کراچی کے ساتھ دوسری بڑی ناانصافی غیر منصفانہ و جانبدارانہ حلقہ بندیوں کی صورت میں ہوئی۔ اس مرحلے پر موجودہ نئی حلقہ بندیوںکو منظم منصوبہ بندی قرار دینے کے لیے ٹھوس شواہد رکھتا ہوں۔ کراچی میں بلدیاتی نظام کے تحت یونین کونسل اور یونین کمیٹیوں کی صورت میں علاقے تقسیم ہیں۔ ان ہی بنیادوں پر ووٹ اور پولنگ اسٹیشن بھی بنائے گئے ہیں۔ یونین کمیٹیاں چار وارڈ میں منقسم ہیں۔ اب نئی حلقہ بندیوں کی وجہ سے انتخابی حلقے اس طرح تقسیم کیے گئے ہیں کہ ایک ہی علاقہ، ایک یونین کمیٹی تین تین صوبائی حلقوں میں منقسم ہوگئے ہیں۔ علاقے کے ووٹرز پریشان رہے کہ ان کا ووٹ کس نئے حلقے میں ہے اور ایک ہی علاقہ پارلیمانی انتخابات میں کیوں تقسیم کیا گیا ہے۔
دوسری عجیب ترین صورتحال کا جو تجربہ ہوا ہے کہ علاقے کے ووٹرز کے لیے زیادہ تر پولنگ اسٹیشن ان کے علاقوں کے بجائے دو کلومیٹر کے فاصلے پر بنائے گئے ہیں۔ حلقہ بندی کرنے والوں نے لسانی بنیادوں پر مخصوص سیاسی جماعت کے ووٹ تقسیم کرنے کے لیے منصوبہ تو کی لیکن زمینی حقائق کو فراموش کرگئے کہ مخصوص جماعت کے علاقوں میں سرکاری اسکول و کالج باافراط موجود ہیں، لیکن دیگر قومیتوں کے علاقوں میں سرکاری اسکول نہ ہونے کے سبب نجی اسکولوں کی عمارتوں کو حاصل کیا گیا ہے۔ ویسے بھی تعلیم کے نام پر مضافاتی علاقوں میں دڑبوں کے نام پر نجی اسکول قائم ہیں، جہاں جاکر ایسا لگتا ہے کہ مستقبل کے معماروں کو اڈیالہ جیل میں تعلیم دی جارہی ہو۔ زمینی حقائق سے نابلد حلقہ بندی کرنے والوں نے مخصوص سیاسی جماعت کے ووٹ بینک توڑنے کی ناکام کوشش کی ہے،کیونکہ لسانی تنظیم کا متحرک تنظیمی اسٹرکچر اپنے علاقے کی ایک ایک گلی کی مکمل معلومات رکھتا ہے اور خصوصی طور پر ان لسانی جماعتوں میں الیکشن سیل چوبیس گھنٹے کام کرتے رہتے ہیں جب کہ دیگر سیاسی جماعتوں میں الیکشن سیل صرف انتخابات کے دوران بنائے جاتے ہیں۔ پرانے طریق نظام کے تحت ووٹر لسٹ پر گھنٹوں بیٹھ کر نام تلاش کیے جاتے ہیں جب کہ مخصوص جماعت جدید دور کے مطابق ٹیکنالوجی کا سہارا لے کر مکمل ووٹر لسٹ کمپیوٹرائز کرلیتی ہے جو ایک کلک پر نادرا کے میسج آنے سے پہلے ہی ووٹر کا نام اور پولنگ اسٹیشن ہی نہیں بلکہ بوتھ نمبر بھی بتادیتے ہیں۔ دیگر سیاسی جماعتوں کے کارکنان الیکشن کے دن ووٹرز کو بوتھ نمبر کے مطابق لائن میں کھڑا کرنے کے لیے تگ و دو میں لگے رہتے ہیں۔ ووٹرز بوتھ کا علم نہ ہونے پر جب طویل لائن سے غلط بوتھ سے واپس جاتا ہے تو وہ لعنت بھیجتا ہوا گھر جاکر سوجاتا ہے کہ شام کو دیکھیں گے کہ کون جیتا۔
حلقہ بندی کرنے والے اور پولنگ اسٹیشن کا انتخاب کرنے والوں کی دوسری بڑی منصوبہ بندی یہ بھی سامنے آئی ہے کہ ایسے نجی اسکولوں کا زیادہ تر انتخاب کیا جاتا ہے، جہاں فرنیچر، بجلی اور پانی سمیت سیکیورٹی کی سہولتیں نہ ہوں۔ این اے 250 کے ریٹرننگ افسر نے الیکشن کمیشن اور چیف سیکریٹری کو پولیس کے عدم تعاون اور پولنگ اسٹیشن کی حالت زار پر باقاعدہ لیٹر بھی لکھا ہے جو اس بات کی نشان دہی کرتا ہے کہ ووٹر کے علاقے سے دو کلومیٹر دُور پولنگ اسٹیشن بنانے کا مقصد مخصوص جماعت کو نقصان پہنچانا نہیں بلکہ بالواسطہ فائدہ پہنچانا ہے۔ یہاں اگر انتخابی فہرستوں کا ذکر نہ کروں تو شفاف انتخابات پر اظہاریہ نامکمل ہوگا۔ انتخابی فہرستیں نادرا ڈیٹا بیس سے بنائی گئی ہیں، لیکن جب ووٹرز کے آگے ایڈریس دیکھے جائیں تو لگتا ہی نہیں کہ یہ نادرا کا کارنامہ ہے۔ شناختی کارڈ بنانے کے لیے خاندان کی تین نسلوں کا حساب کتاب اور دستاویزات لینے والا نادرا کا ادارہ جب انتخابی فہرست مرتب کرتا ہے تو اس میں 60فیصد ایسے ایڈریس ہیں جس میں مکان نمبر ، علاقہ ، محلہ اور دیگر معلومات دستیاب ہی نہیں۔
اس کا فائدہ اٹھاتے ہوئے الیکشن کمیشن کی جانب سے پولنگ اسٹیشن کی انتخابی فہرستوں کو اس طرح بھی تقسیم کیا گیا ہے کہ اگر خواتین کے مختص پولنگ اسٹیشن میں ہے تو اس میں شماریاتی کوڈ کے ایک یا دو بلاک کے سرکل کا مردانہ بوتھ بھی شامل کردیا گیا ہے، اسی طرح مردوں کے لیے مختص پولنگ اسٹیشن میں بھی ایسے بوتھ بنا دیے گئے ہیں کہ جس میں کچھ سرکل خواتین کے بوتھ کے بھی ہیں۔ اس طرح جب مرد خواتین کے پولنگ اسٹیشن میں جائیں گے تو عورتوں کا رش دیکھ کر ووٹ کاسٹ کرنے میں ہچکچاہٹ محسوس کریں گے اور خواتین ووٹرز تو مرد پولنگ اسٹیشن میں بنے ایک بوتھ میں اپنا ووٹ کاسٹ کر ہی نہیں سکتیں۔ اسے انتخابی ٹرم میں گھوسٹ بوتھ کہا جاتا ہے جو بعد میں نیلامی کے بعد من پسند امیدوار کے لیے جعلی ٹھپے لگا کر سیل بند کردیا جاتا ہے۔ یہاں ایک اور معلومات کو شیئر کرنا چاہوں گا کہ ایک نجی اسکول کی عمارت کو سیاسی و مالی فائدہ پہنچانے کے لیے پولنگ اسٹیشن کے طور پر ایک کے بجائے تین تین پولنگ اسٹیشن میں تقسیم کردیا گیا ہے، یعنی ووٹر جب پولنگ اسٹیشن میں داخل ہوگا تو دراصل وہ ایک پولنگ اسٹیشن میں نہیں بلکہ ایک عمارت میں قائم چند کمروں پر مشتمل تین یا چار پولنگ اسٹیشن میں بیک وقت داخل ہوتا ہے۔ اس کے بعد ووٹر کے لیے اپنا پولنگ اسٹیشن اور بوتھ تلاش کرکے ووٹ ڈالنا جوئے شیر لانے کے مترادف ہوتا ہے۔ کراچی کے انتخابی نتائج کیا ہوں گے اور کون جیتے گا۔ اس حوالے سے میں کم ازکم یہ یقین سے کہہ سکتا ہوں کہ جس نے بھی یہ حلقہ بندیاں اور پولنگ اسٹیشن سمیت اہل کراچی کے ساتھ متعصبانہ رویہ اپنایا ہے وہ کم ازکم شہر میں رہنے والی اقلیتی لسانی اکائیوں سے مخلص نہیں۔ کراچی کا مینڈیٹ کس جماعت کو جانا چاہیے اور کس کو نہیں اس کا فیصلہ عوام کو آزادانہ کرنے کے لیے تمام پولنگ اسٹیشن میں فوجی اہلکاروں کی تعیناتی ہی کافی نہیں بلکہ پولنگ اسٹاف کی تبدیلی بھی ناگزیر تھی۔ جب تک پولنگ عملہ سیاسی جماعتوں کے بھرتی کارکنان پر مشتمل ہوگا۔ شفاف انتخابات کا انعقاد ممکن نہیں۔