کراچی: اربن ڈیموکریٹک فرنٹ (UDF)کے بانی چیرمین ناہید حسین نے کہاہے کہ کراچی میںبھتہ خور پھر سے سرگرم ِ عمل ہوگئے ہیںاور چلتے پھرتے عام لوگوں سے ان کی رقم اور موبائل فونز دھڑلے سے سر عام لوٹ رہے ہیںاور ڈاکے بھی ڈالے جارہے ہیں جبکہ کراچی میں رینجرز کے آپریشن کے فوری بعد یہاں سے اس قسم کی وارداتوں کا سلسلہ تھم گیا تھا مگر جب سے حکومت اور انتظامیہ کی رینجرز سے محاذ آرائی شروع ہوئی ہے تب سے ان بھتہ خوروں کی حوصلہ افزائی ہوئی ہے۔
جنہیں احساس ہوچکا ہے کہ رینجرز کی گرفتاری کا شاخسانہ مقامی حکام ہوتے ہیں جہاں سے عدالتوں سے با آسانی رہائی حاصل ہوجاتی ہے ،کیونکہ فوجی عدالتوں اور ایکشن پلان کو سندھ حکومت اور انتظامیہ نے گرد کی طرح جھاڑ دیا ہے ،جس کی وجہ سے دہشت گرد ،چور اچکے،ڈاکو، قبضہ گروپ اور ٹارگٹ کلرز از سرِ نو منظم ہوتے جارہے ہیں ،جس کے نتیجہ میں پچھلے ہفتے رینجرز کے اہلکار مقامی حکومت کی مجرمانہ غفلت سے جامِ شہادت نوش کرچکے ہیں۔
گو کہ پورے سندھ بالخصوص کراچی میں آپریشن جاری ہے اور مجرمان بھی پکڑے جارہے ہیںجنہیں گرفتاری کے بعد مقامی انتظامیہ کے سپرد کردیا جا تا ہے مگر اس پر پردے پڑے ہوئے ہیں یعنی نام نہاد جمہوری سیا سی حکمرانوں نے دہشت گردوں کا جمعہ بازار اپنے پاس سجا رکھا ہے جنہیں سزائیں نا معلوم کس صدی میں دی جائی گیں یا پھر وہ بھی سیا سی بنیا دوں پر رہا ہو جائینگے ،اس قسم کے معاملات فوج اور رینجرز کے لئے بڑے چلینج ہیں۔
ان خیالات کا اظہار انہوں نے عہدیداران و کارکنان کے ہفتہ وار اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے کیا ،ناہید حسین نے مزید کہا جس ملک میں جزا و سزا فراہم کرانے والے ادارے مصلحت کا شکار ہوجائیں وہاں معاشرے ٹوٹ پھوٹ جایا کرتے ہیں یا بکھرنے کا سبب بنتے ہیں ،اسی لئے ہماری ریا ست تعمیر و ترقی کے مراحل اس وجہ سے نہ طے کرسکی کیونکہ یہاں قانون کی پاسداری میں رکاوٹیں ڈال دی جاتی ہیں،اس کے علا وہ سیا سی اثر اندازی سے عام لوگوں کو انصاف نہیں ملتا اور طاقت ور کمزور پر غالب آجاتے ہیں،یہی وجہ ہے کہ معاشرے میں جرائم پیشہ افراد کے علا وہ ظلم کرنے والوں کی تعداد میں اضا فہ ہو رہا ہے اور ان دنوں کرپٹ معاشی دہشت گرد اور جرائم پیشہ افراد کا ہجوم ہے جن کے خلاف خبریں تو بہت آرہی ہیں مگر جب جرم ثابت کرانے کی باری آتی ہے تو پھر وہ پرانے حربے استعمال کئے جاتے ہیں۔
یعنی پیشیوں پر پیشیاں یا پھر میڈیکل سرٹیفیکٹ کا استعمال اور ان سب سے بڑھ کر با اثر شخصیات کی دخل اندازیاں ، خاص طور پر ماڈل گرل ایان علی اس کی بہترین مثال ہے،اس کے علا وہ جس کو چھوڑنا ہو تو وہاں نیب کا استعمال کیا جا تا ہے ،حالانکہ دہشت گردی اور معاشی دہشت گردی کے لئے سرسری سما عت کی عدالتیںموثر ہوتی ہیں جس سے گریز کیا جا تا ہے، کیونکہ اصل مقصد سزا دینا ہی نہیں ہوتا بلکہ صرف وقت گزاری ہوتی ہے،ناہید حسین نے کہا کہ مندرجہ بالا تنا ظر میں اس بات کو تقویت ملتی ہے کہ آج ہمارے ملک کو ایسی قیا دت کا فقدان ہے جو 20 کروڑ عوام کو ایک قوم بنا سکے،ہاں البتہ یہ بیس کروڑ کا ہجوم پاکستانی فوج کے ساتھ ایک پیج پر نظر آتا ہے کہ وہ سیاسی قیا دت کے مقابلے میں وہ پوری قوم کے ساتھ ان کے ہر دکھ اور سکھ میں ان کے شا نہ بشانہ کھڑی رہتی ہے۔
خواہ قدرتی آفات ہوں یا پھر کوئی اور نا گہانی حادثات ایسے موقع پر وہ ڈلیور کرتے ہیں ،جبکہ ہمارے حکمران ڈلیور کرنا تو دور کی بات ہے،گڈ گورننس سے بھی نا آشنا ہیں۔ ناہید حسین نے آخر میں کہا کہ کیا ہم دہشت گردوں اور جرائم پیشہ افراد سے چھٹکارا حاصل کرسکتے ہیں؟ اس کا جواب صرف نفی میں ہی ہوسکتا ہے۔لہذا ضرورت اس بات کی ہے کہ انصاف کا حصول مختصر مدت میں حتمی بنایا جائے تاکہ ہم بھی جمہوری اور مہذب معاشرے میں شمار ہوسکیں۔