کراچی (اصل میڈیا ڈیسک) کراچی میں نکالی گئی ایک احتجاجی ریلی میں سخت گیر مذہبی سیاسی جماعت تحریک لبیک پاکستان کے ہزاروں کارکنوں نے شرکت کی۔ اس ریلی میں پیغمبر اسلام کے خاکوں کی اشاعت کے حوالے سے فرانس کی پالیسی کی مذمت کی گئی۔
تحریکِ لبیک پاکستان نامی سخت گیر اور کئی حلقوں کی طرف سے انتہا پسند قرار دی جانے والی مذہبی سیاسی جماعت کے سربراہ خادم حسین رضوی ہیں۔ انہیں پاکستان میں سنی بریلوی عقیدے کے حامل حلقوں میں شہرت خاص طور پر توہین رسالت کے قانون کی پر زور حمایت، مقتول گورنر سلمان تاثیر کے قاتل ممتاز حسین قادری کو غیر معمولی وقعت دینے اور توہینِ رسالت کے الزام سے رہائی پانے والی مسیحی خاتون آسیہ بی بی کی سزائے موت برقرار رکھنے کے حق میں بڑھ چڑھ کر دیے جانے والے بیانات کی وجہ سے حاصل ہوئی تھی۔
خادم حسین رضوی کی جماعت نے پاکستان کے مالیاتی مرکز اور ملک کے سب سے بڑے شہر کراچی میں اس احتجاجی ریلی کا انتظام فرانسیسی صدر کی جانب سے پیغمبر اسلام کے متنازعہ خاکے دکھائے جانے کو آزادئ اظہار رائے کے ساتھ جوڑے جانے کی مذمت میں کیا۔ اس ریلی میں کراچی کے علاوہ دوسرے شہروں سے بھی لوگوں نے شرکت کی۔ ریلی کے شرکاء کراچی کی مختلف سڑکوں پر مارچ کرتے ہوئے فرانس مخالف نعرے بازی کرتے رہے۔
تحریکِ لبیک پاکستان کی اس ریلی کے شرکاء نے مقررین کی رائے سے اتفاق کرتے ہوئے پاکستانی حکومت سے مطالبہ کیا کہ وہ فرانس کے ساتھ سفارتی تعلقات منقطع کر لے۔
شرکاء نے عوام سے کہا کہ وہ فرانسیسی مصنوعات کا واضح طور پر بائیکاٹ کریں۔ شرکاء نے ریلی کے دوران فرانسیسی صدر ایمانوئل ماکروں کی تصاویر کو پاؤں تلے بھی روندا۔ اس کے علاوہ فرانسیسی پرچم جلایا بھی گیا۔ شرکاء نے ‘ناموس رسالت کے لیے ہر قسم کی جانی اور مالی قربانی‘ دینے کے عزم کا بھی ظاہر کیا۔
تحریکِ لبیک پاکستان کے ترجمان زبیر قصوری نے نیوز ایجنسی ڈی پی اے سے بات چیت کرتے ہوئے کہا کہ ان کی جماعت کا ملکی حکومت سے مطالبہ ہے کہ فرانس کے ساتھ تعلقات منقطع کرنے کے ساتھ ساتھ پاکستان میں تعینات فرانسیسی سفیر کو بھی بےدخل کیا جائے۔
دوسری جانب پاکستانی وزیر اعظم عمران خان کا کہنا ہے کہ یورپی لوگوں کو اس امر کا ادراک نہیں کہ مسلمان پیغمبر اسلام کی توہین یا تصحیک برداشت نہیں کر سکتے۔
اس موقف کا پس منظر یہ ہے کہ فرانس میں ایک اسکول ٹیچر سیموئل پیٹی کے اپنی کلاس میں پیغمبر اسلام کے خاکے دکھانے کے باعث قتل کر دیے جانے کے بعد فرانسیسی صدر ماکروں نے ملکی جریدے شارلی ایبدو کے حقِ آزادی رائے اور فرانس میں مروجہ طنزیہ کلچر کو محفوظ رکھنے کا عہد بھی کیا تھا۔
سیموئل پیٹی کے قتل کے بعد پورے فرانس میں ‘مسلم انتہا پسندانہ رویوں‘ کی مذمت کرتے ہوئے احتجاجی مظاہروں کا سلسلہ شروع ہو گیا تھا۔ اس دوران فرانسیسی صدر ایمانوئل ماکروں نے اسلام کے نام پر جہادی دہشت گردی کرنے والوں کے خلاف کریک ڈاؤن اور آزادیٴ رائے کی حمایت کرنے کے اپنے موقف کا اعادہ کیا تھا۔
ان کے اس ‘عزم‘ کے اظہار کے جواب میں ترکی، پاکستان اور بنگلہ دیش سمیت کئی مسلم ممالک میں ماکروں مخالف مظاہرے اور فرانسیسی اشیاء کے بائیکاٹ کی آوازیں بلند ہونا شروع ہو گئی تھیں۔ ترک صدر رجب طیب ایردوآن، پاکستانی وزیر اعظم عمران خان اور ملائیشیا کے سابق وزیر اعظم مہاتیر محمد نے بھی اسی تناظر میں فرانسیسی صدر کے آزادیٴ اظہار رائے کے حوالے سے دیے گئے بیان کی مذمت کی تھی۔