کراچی (جیوڈیسک) گڈز ٹرانسپورٹرز کی ہڑتال سے ملکی تجارت کو جھٹکا، کراچی بندرگاہ پر پھنسے کنٹینرز کی تعداد ستر ہزار سے تجاوز کرگئی۔ ٹرمینل آپریشن معطل ہو کر رہ گیا۔ انتظامیہ نے مزید بحری جہازوں کو ٹرمینل پرنہ آنے کیلئے خط لکھ دیا ہے۔
مختلف اقسام کی دالیں، مسالا جات اور خشک دودھ کے ہزاروں کنٹینرز پھنس کر رہ گئے۔ گورنر ہاؤس کے ذرائع کے مطابق گڈز ٹرانسپورٹ کے روٹ پرعدالتی حکم کی غلط تشریح کی گئی، جلد قانونی حل نکلنے کا امکان ہے۔
کراچی میں گڈز ٹرانسپورٹرز کی ہڑتال کو 9 دن ہوگئے مگر حیرت انگیز طور پر اس انتہائی سنجیدہ مسئلے کو حل کرنے کیلئے اب تک کوئی سنجیدہ کوشش نہیں کی گئی ہے۔
حالت یہ ہے کہ بندرگاہ پر پھنسے ہوئے درآمدی و برآمدی کنیٹرز کی تعداد 70 ہزار سے آگے نکل چکی اور کنٹینر ہینڈلنگ کی گنجائش ختم ہو گئی ہے۔
برآمدی سامان کی بروقت ترسیل نہ ہونے سے ایکسپورٹرز کو روزانہ 6 ارب روپے کا نقصان ہورہا ہے، جبکہ درآمد ی خام مال مقامی فیکٹریوں تک نہ پہنچنے سے کراچی سمیت ملک بھر میں صنعتی پیداوار کا عمل بھی شدید متاثر ہے اور صنعتکاروں کو خطیر مالی نقصان ہورہا ہے۔
یہ صورتحال ایک طرف ملکی معیشت کیلئے نقصان دہ ہے تو دوسری طرف عالمی سطح پر بھی برآمدی شعبے کی ساکھ کو داو پر لگاسکتی ہے۔
دوسری طرف اس مسئلے کو حل کرنے کے بجائے جگاڑ کا سہارا لیا گیا ہے اور وقتی طور پر تجارتی اور صنعتی سامان کی ترسیل بذریعہ مال گاڑی کی جارہی ہے۔ریلوے ذرائع کا کہنا ہے کہ یومیہ دس مال گاڑیاں ملک کے مختلف شہروں کے لیے روانہ ہورہی ہیں۔
گڈز ٹرانسپورٹرز کی ہڑتال کے باعث کراچی کی بندرگاہ پر مختلف اقسام کی دالوں، مصالحوں، خشک دودھ، چائے کی پتی سمیت دیگر ضروری خوردنی اشیا کے دو سو سے زائد کنٹینرز بھی پھنسے ہوئے ہیں، جن سے رمضان کے دوران خوردنی اشیا کی قلت پیدا ہونے کا خدشہ ہے۔
اچھی خبر یہ ہے کہ گورنر سندھ محمد زبیر سے گڈز ٹرانسپورٹرز کی مختلف ایسوسی ایشننز کے وفد نے ملاقات کی ہے۔ ان کا مطالبہ ہے کہ شہر کے تینوں طے شدہ روٹس پر رات میں گڈز ٹرانسپورٹ کو چلنے کی اجازت دی جائے۔گورنر نے ٹرانسپورٹرز کے تمام جائز مسائل حل کرنے کی یقین دہانی کرائی ہے۔