کراچی: جمعیت علماء پاکستان کے مرکزی سیکرٹری جنرل اور مرکزی جماعت اہل سنت کے نگران اعلیٰ شاہ محمد اویس نورانی صدیقی نے کہا ہے کہ ٹیلی کام کے شعبہ پر جبری ٹیکس کے بعد اب انٹرنیٹ پر جبری ٹیکس لگا یا گیا، اس کا اثر بقائدہ طور پر ٹیلی کام اور سوفٹ وئیر کی صنعت کو پہنچے گا، موبائل رچارج پر ٹیکس کم کر کے ریلیف دیا جائے۔
موبائل فون سستے ہونے اور روٹی سستی ہونے کا فرق کیوں سمجھ نہیں آتا ہے؟ کھانے پینے کی اجناس، کپڑے کی صنعت، ایکسپورٹ کے شعبہ پر کوئی توجہ نہیں دی گئی ہے، متوسط طبقے اور درمیانے درجے کے کاروباری حضرات کے لئے یہ بجٹ مہنگائی بم ہی ہے، بڑی گاڑیاں سستی کی گئی ہیں اور چھوٹی گاڑیاں مہنگی کی گئی ہیں، بڑے جاگیرداروں کو سبسڈی اور کسانوںپر حد بندی کی گئی، فوجی بجٹ میں 11.6% اضافہ جب کہ تعلیم کا بجٹ کئی سال سے 3.5% ہی رکھا گیا ہے
بجٹ کے حوالے سے منعقدہ جمعیت علما ء پاکستان کے اجلاس میں جمعیت علماء پاکستان کے مرکزی سیکرٹری جنرل اور مرکزی جماعت اہل سنت کے نگران اعلیٰ شاہ محمد اویس نورانی صدیقی نے پیغام دیتے ہوئے کہا کہ وزیر اعظم کی خواہشات کچھ نظر آتی ہیں اور ان کی کابینہ کی تجاویزات کچھ نظر آتی ہیں، غلط مشوروں اور غیر تجربہ کار مصاحبوں نے انہیں پہلے بھی مشکل وقت سے دوچار کیا ہے، موجودہ بجٹ میں ہمیں کوئی بھی عوامی ہمدردی نظر نہیں آتی ہے، اس بجٹ پر پھر سے غور ہونا چاہیے، گزشتہ اور موجودہ دونوں حکومتیں عوامی بجٹ بنانے میں ناکام رہی ہیں۔
بجٹ کا اکثر حصہ غربت کو ختم کرنے سے نہیں بلکہ غریب کو ختم کرنے سے تعلق رکھتا ہے، دفاقی حکومت بجٹ پر پھر سے غور کرے، سیلز ٹیکس کا نام زندگی ٹیکس رکھ دیا جائے، اس بجٹ میں عوام دشمنی ظاہر ہور ہی ہے، کیا موجودہ حکومت بھی گزشتہ حکومت کی طرح اکثریت کھونا چاہتی ہے؟ بعض جماعتوں کی طرف سے شیڈو بجٹ یا اس طرح کی چیزیں پیش کی گئیں جو کہ فقط ہندسوں کا ہیر فیر ہے، اصل میں اس بات کی ضرورت ہے کہ ملک کے بہترین معاشی ماہرین سے مشورہ لیا جائے ، جمعیت علماء پاکستان کے پاس بجٹ کے حوالے سے مکمل پلان موجود ہے جو کہ ہمارے منشور کا ایک حصہ ہے۔