کراچی (سید جعفر عباس جعفری) پاکستان کوسٹ گارڈز (پی سی جی) اور سائیکلنگ تنظیموں کے مابین شدید ترین اختلافات اور آفیشلز و فوجی افسران کے مابین چپقلش کے علاوہ مروجہ ضابطوں کی خلاف ورزی اور سہولیات کے فقدان کے باوجود کراچی کے نوجوانوں نے سائیکلنگ میں نئے ورلڈ ریکارڈ قائم کر کے سائیکلنگ کی دنیا میں نئی تاریخ رقم کردی۔
29ستمبر سے یکم اکتوبر 2016ء تک تین مرحلوں پر محیط تین روزہ پاکستان کوسٹ گارڈز (پی سی جی) اینٹی ٹیرر ازم، اینٹی نارکوٹکس سیکنڈ ٹور ڈی پاکستان 550کلومیٹر کراچی سے گوادر سائیکل ریس میں اورنگی ٹاؤن کے محمدعرفان نے پہلی، ماڈل کالونی کے کاشف بشیر نے دوسری اور لیاری کے محمد یاسین نے تیسری پوزیشن حاصل کی جبکہ ابو بکر، عرفان خان، وسیم، رحیم بخش، عبداللہ، ضمیر احمد اور حق نواز نے باالترتیب چوتھی، پانچویں، چھٹی، ساتویں، آٹھویں، نویں اور دسویں پوزیشن حاصل کی۔
ریس کا آغاز 29 ستمبر کی صبح تقریباً ساڑھے آٹھ بجے زیرو پوائنٹ اُتھل سے ہوا اور پہلے مرحلے میں 26سائیکلسٹوں نے اوڑماڑا تک 250کلومیٹر کا فاصلہ شام سوا سات بجے تک طے کیا۔ پہلے مرحلے میں محمد عرفان، یاسین اور ابو بکر باالترتیب پہلے، دوسرے اور تیسرے نمبر پر رہے۔ اس مرحلے کے دوران نہ صرف سائیکلسٹوں نے درجنوں بلند بالا اور دشوار گذار چڑھائیاں عبور کیں بلکہ آن ٹریک سائیکل سوار پورا دن شدید گرمی اور دھوپ میں بھوکے پیاسے سائیکلیں چلاتے رہے حتیٰ کہ انہیں انرجی ڈرنک تک سے محروم رکھا گیا۔
کراچی سے گوادر تک کوسٹل ہائی وے پر جاری اس تین روزہ سائیکل ریس کے تمام مرحلوں میں متعدد مقامات پر عموماً اور اسٹارٹنگ پوائنٹس پر چیف آرگنائزر ملک کلیم احمد اعوان اور آفیشلز کے مابین شدید ترین نوعیت کے اختلافات خصوصی طور پر جملہ دیگر شرکا ء باالخصوص ذرائع ابلاغ کے نمائندوں کے لیے جہاں درد سر بن گئے وہیں اس صورتحال سے سائیکلسٹوں کی کارکردگی پر بھی منفی اثرات پڑے۔
30ستمبر کی صبح اوڑماڑا سے پسنی تک 150کلومیٹر کے دوسرے مرحلے کا آغاز بھی پہلے مرحلے سے مختلف نہ تھا تاہم ٹریک پلین اور آسان ہونے کے باعث سائیکلسٹوں نے قدرے سکون اور مناسب ماحول میں اپنا مرحلہ مکمل کیا۔ اِس مرحلے کے اختتام پر بھی محمد عرفان نے اپنی سبقت برقرار رکھی جبکہ یاسین اور ابو بکر باالترتیب دوسرے اور تیسرے نمبر پر رہے۔ رات قیام کے بعد یکم اکتوبر کی صبح سائیکل سوار پسنی سے گوادر کے لئے اپنے تیسرے اور آخری مرحلے کے لیے روانہ ہوئے اور تقریباً ساڑھے تین گھنٹے میں 150کلومیٹر کا فاصلہ عبور کر کے شرکاء ریس نے 550کلومیٹر کی طویل تریل ریلی مکمل کی۔
اس مرحلے میں بھی محمد عرفان بدستور پہلے نمبر پر رہے اور یوں مجموعی طور پر مخصوص پوائنٹ اسکورنگ اور حتمی نتائج کے مطابق محمد عرفان، کاشف بشیر اور محمد یاسین کو باالترتیب اول، دوم اور سوم قرار دیا گیا۔ اول پوزیشن حاصل کرنے والے کے لیے تین لاکھ، دوسری پوزیشن کے لیے دو لاکھ اور تیسری پوزیشن کے لیے ایک لاکھ روپے انعام مقرر تھا۔ اختتامی تقریب بزنجو اسٹیڈیم گوادر میں متعقد ہوئی جہاں مغموم و مضطرب، لاچار و مجبور، ناخوش و بے بس او سہمے ہوئے سائیکلسٹوں (کھلاڑیوں) نے بد دلی و بے رغبتی سے مجبوراً و مصلحتاً شرکت کی۔
روائتی آئٹمز پیش کرنے کے بعد پہلے سے تیسرا مرحلہ اسٹیڈیم کے باہر مکمل کرنے والے سائیکلسٹس بتائی گئی ترتیب سے اپنے چیف آرگنائزر اور آفیشلز کے ساتھ اسٹیڈیم میں داخل ہوئے تو مخصوص شرکاء کے علاوہ موجود صحافیوں نے بھی سائیکلسٹوں کو داد دی۔ تقریب کے مہمان ِ خصوصی وزیر اعلیٰ بلوچستان تھے تاہم نہ صرف وہ خود بلکہ ان کی کابینہ سمیت ماسوائے محض ایک رکن صوبائی اسمبلی کے بلوچستان بھر سے کسی صوبائی یا قومی اسمبلی کے منتخب نمائندے نے تقریب میں آنے کی زحمت تک گوارا نہیں کی۔
بعد ازاں پی سی جی کے ڈی جی نے مہمان خصوصی کی حیثیت سے فاتح سمیت دیگر شرکاء ریلی میں انعامات تقسیم کئے۔ شدید ترین تحفظات، عدم اعتمادی، غیر سنجیدگی اور دیگر متعدد وجوہات کے باعث صحافیوں نے احتجاجاً خاموشی اختیار کئے رکھی تاہم کسی عبوری فیصلے سے گریز کرتے ہوئے حتمی فیصلے کو فی الوقت موجودہ سرحدی گشیدگی کے باعث موقوف کردیا جو بعد ازاں حصول موقف فریقین طے اور شائع و نشر کیا جائے گا۔
علاوہ ازیں ذمہ داران کی جانب سے گنیز بک آف ورلڈ ریکارڈ سمیت کسی بھی عالمی ادارے کو تصدیق و پیمائش کے لیے مدعو نہ کرنا بھی یقینا معنی خیز اور پر اسرار دکھائی دیتا ہے جس کی بابت مبینہ طور پر مختلف آراء محفو ظ کی جاتی ہیں۔واضح رہے کہ پورے ایونٹ کے دوران پی سی جی کا پی آر او صحافیوں کی نظروں سے اوجھل مگر اپنے ساتھیوں و افسران سے رابطوں میں رہا۔