اس لوٹ کھسوٹ کو کیا کوئی روکے گا

 Robbery

Robbery

تحریر: پروفیسر ڈاکٹر شبیر احمد خورشید
کورنگی کراچی کا ایک گنجاں آباد علاقہ ہے جو ضلع شرقی میں واقع ہے۔ یوں تو یہ پورا ضلع ہی دہشت گردوں کے ہاتھوں میں کھلے طور پر دیدیا گیا ہے۔ہر جگہ دن دہاڑے چار سے چھ ڈکیت موٹر سائکلوں پر آتے ہیں اوروہ ایک وسیع علاقے میں جی بھر کر لوٹ کھسوٹ کرتے ہیں اور اسلحہ لہراتے ہوئے کھلے روڈوں پر نکل جاتے ہیں۔کوئی انہیں پوچھنے اور پکڑنے والا نہیں ہے۔پولیس کو اگراطلاع دیجاتی ہے تووہ بجائے کوئی ریمڈی پیش کرنے کے سائلوں کو ڈرا دھمکا کر واپس گھر بھیجنے کی کوشش کرتی ہے ایف آئی آر کے اندراج سے ہر قیہمت پر بچنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ان ڈکیتوں اور دہشت گردوں کا نشانہ خاص طور پر کورنگی نمبر چار کے تھانے کی حدود میںکے علاقے بہت زیادہ ہیں۔جس میں کونگی نمبر5 ،اور 6 ،کورنگی50-A ،سوکواٹر،کورنی نمبر 3 اور زمان ٹائون کے علاقے شامل ہیں۔

یہ ڈکیتوں کا ٹولہ6 سے 8 ، لڑکوپر مشتمل ہوتا ہے جو 3 سے 4 موٹر سائیکلوں پرصبح 11 بجے سے دوبجے کے درمیاں آتے ہیں وارداتیں کرنے آتے ہیں اور کامیاب کاروائیوں کے بعد اسلحہ لہراتے ہوئے چلے جاتے ہیں۔ان ڈکیٹ لڑکوں کی عمریں 16 سے 22 سال کے درمیان ہیں اور شکل و شباہت سے کرسچن یا بنگالی لگتے ہیں۔انہوں نے عموماََ کوئی ماسک یا نقاب وغیرہ بھی ہ پہنا ہوا نہیں ہوتا ہے۔ جس جگہ پر یہ لوگ واردات کرتے ہیں اُس علاقے کے ایک مخصوص ایریاکی دوکانوں یا گھروں کے گردحصار بنا لتے ہیں۔ تاکہ ان کے حصار میں پھنسنے والے تما لوگوں اور راہ گیروں کو بھی یہ لوگ لوٹ سکیں،وہ چاہے گھر سے نکلنے ولا کوئی فرد ہویا راہ گیر ہو۔ گھروں سے زیور و نقدی اور دوکانوں سے پورے پور گلے اور جو قیمتی سامان ان کے ہاتھ لگتا ہے موبائیل، رسٹ واچیز وغیرہ سب کچھ لے اڑتے ہیں اور جب متاثرہ لوگ ڈکیتی کی ایف آئی آر کٹوانے کی غرض سے تھانے پہنچ کر ایف آئی آر کٹونے کی کوشش کرتے ہیں۔ توتھانے کے عملے کی کوشش یہ ہوتی ہے کہ ایف آئی آر درج ہی نہ ہو

۔اگر کوئی زبردستی مُصر ہوتا ہے تو چھ سات گھنٹوں کی کوششوں کے بعد ہلکی سے ایف آئی آر درج کر لی جاتی ہے۔ مگر اُس پر کوئی کاروئی عمل میں نہیں لائی جاتی ہے۔اس تھانے کی حدود میں ایک ایک دوکان پر دو دو اور تین تین بار ڈکیتیاں ہوچکی ہیں مگر تھانے کی جانب سے کوئی کاروائی عمل میں نہیں لائی جارہی ہے۔جب تھانے پر لوگوں کی جانب سے زیادہ زور دیا جاتا ہے تو ان سے کہا جاتا ہے کہ گارڈ رکھ لیں اگر تم لوگوں کو گاڈ حاصل کرنے میں کوئی دشواری ہے تو ہم اس سلسلے میں تمہاری مدد کے لیئے تیا رہیں۔کوئی بتائے کہ یہ لوگ اگر گارڈ رکھنے کے قابل ہوتے تو کیا تھانوں کے اس طرح چکر لگاتے؟؟؟اس حولے سے کراچی کا ہی میں اپنا تجربہ بھی شیئر کرتا چلوں ۔میرے گھر میں قربانی ہوئی تو ایک سیاسی جماعت کے کارندے کھا ل لینے کے لیئے آگئے۔تو میں نے ان سے سے کہا کہ کھال تو میں ایک رفاحی ادارے میں دے دی ہے ۔ جہاں بچوں کی رہائش بھی ہے اور مفت تعلیم کا انتظا ہے۔ان میں سے ایک نے مجھے گھورتے ہوئے کہا کہ یہ آپ نے اچھا نہیں کیا۔گویا مجھے اپنے جانور کی کھال ا ن کو ہی دینی چاہئے تھی۔

Karachi Korangi Robbery

Karachi Korangi Robbery

یہ وارداتیں خاص طور پر بقر عید کے بعد سے بہت بڑھ چکی ہیں۔لوگ بتاتے ہیں کہ ایک مخصوص سیاسی جماعت کو جن لوگوں قربانی کی کھالیں دینے سے انکار کیا۔ سیاسی کاریندے اُن کی دوکانوں اور گھروں میںپندرہ دنوں کے اندر دو دواور تین تین مرتبہ یہ وار داتیں کر چکے ہیں۔ ان علاقوں میں پولیس موبائل تو شائید لوگوں نے مہینوں سے دیکھی ہی نہیں ہیں۔بلوچ کہاوت کے مطابق ”یہاں تھر بندھے ہیں اور کتے آزاد ہیں” وزیر اعلیٰ سندھ اور وزیر داخلہ سندھ اور ڈی آئی جی کراچی بتائیں کہ ان لوگوں کوانہوں نے کن درندوں کے رحم و کرم پر چھوڑا ہوا ہے؟؟؟کیا لوگ اپنی محنت کی کمائی یوں ہی لٹواتے رہیں؟لوگوں کا عام خیال؛ یہ ہے کہ ان ڈکیتوں کا تھانے اور اس کے افسران سے کوئی لنک تو ضرور ہے۔ جبھی تو یہ لوگ دن دہاڑے اور ایک ہی مقام پر آٹھ سے دس دنوں کے دوران کئی کئی وارداتیں کر کے یہ جا…وہ جا…اور غریب محنت کرنے والے اپنی قسمتوں پر افسوس کرکے آنسو بہاتے رہ جاتے ہیں جن کی کہیں بھی داد رسی نہیں ہوتی ہے۔

کراچی کے شہری کیا ساری زندگی ان دہشت گردوں لٹروں اور ڈاکوئوںکا نشانہ بنتے رہیں گے۔سندھ اور خاص طور پر کراچی میں حکومت اور اس کے اداروں کی نا تو رٹ ہے اور ہی حکومت کی یہ خواہش دکھائی دیتی ہے کہ وہ اپنی رِٹ قائم کرے ۔ایسا لگتا ہے کہ سندھ پولس میں آج بھی بہت بڑی تعداد میں سیاسی گماشتے بیٹھے ہیں۔جن کوکوئی راہ راست پر لانے کا سوچنے کی غلطی بھی نہ کرے۔ان پولیس اہلکاروں کو نہ تو حکومت کام کرنے کا کہہ سکتی اور نہ ہی مرکز سے ان کے چیک اینڈ بیلنس کاکوئی انتظام ہے۔سندھ کے کسی بھی ادرے کو کراچی کے عوام کی کوئی پرواہ شائد اس لئے بھی نہیں ہے کہ یہ لوگ پیپلز پارٹی کے تو ووٹر ہیں نہیں جن کی داد رسی کی جائے۔سندھ کی نا اہل انتظامیہ کو کوئی لگام دینے والا کبھی پیدا ہوگا کہ نہیں؟؟؟یہ لوگ تو ہر سہاہ سفید کی مالک ہونے کے باوجود بھی اداروں کی درستگی کی طرف شائد کبھی بھی متوجہ نہ ہونگے۔

سندھ کا محکمہِ داخلہ بھی شائد سائیں سرکار کی طرح بھنگی ہے ۔جو بھنگ کے نشے میں ہر بد شکل اور بری چیز کو حسین اور خوبصورت سمجھ کر نشے میں بے تحاشہ قہقہے برسا رہا ہے۔کراچی کے نوحی علاقوں کا حال خاص طور پر، پاکستان کے برے سے برے علاقوں سے بد تر ہے۔رینجرز کی بھی ان علاقوں میں شائد توجہ نہیں ہے۔ جس کا نتیجہ یہ نکل رہا ہے کہ شہر کے ان مذکورہ علاقوںکے حالات میں سدھار آنے کے فوری امکانا ت تو ہیں نہیں۔اس مندی کے دور میںکریمنلز بھی شائد اس انتظار میں ہیں کہ رینجرز کا کام ختم ہو تو وہ اپنا نیٹ ورک پہلے کی طرح شدت کے ساتھ چلا کر کراچی کے محنت کرنے والوں کا رہا سہا بھی جوس نکال کر اپنے بیرونی اورندرونی خزانوں کو جو حالیہ آپریشن کی زد میں آکر دیوالیہ ہوا چاہتے ہیں بھر نے میں دوبارا کامیاب ہو جائیں۔

وزیر اعلیٰ سندھ ، وزیرِ داخلہ سندھ اور آئی جی سندھ کو خاص طور پر ،ان کلپرٹس اور پولیس کے محکمے کی کار گذاریوں پر توجہ دینے کی اشد ضرورت ہے۔اکر یہ ادارے لوگوں کو مظالم سے نہیں چھڑائیں گے تو یہاں کون ان کی مدد و اعانت کو آئے گا؟؟؟خدارا ان مظلوموں کے آنسوں پونچھ کر ان کو انصاف کی باقاعدفراہمی کو یقینی بنا ئیں۔کیونکہ ان کے آنسوں پوچھنے کی بے پناہ ضرورت ہے۔آج پولیس کا یہ نعرہ ”پولیس کا ہے فرض مدد آپکی” اس طرح لگوانا چاہئے۔ ” پولیس کا ہے فرض لُٹیرے کھلے چھوڑنا”پولیس اہلکاروں کا یہ کہناکہ اگر کسی کو مشکلات ہیں تو وہ اپنے کرائے کے گارڈ ان ہی سے حاصل کر لیں…..پولیس کے آرام و آسائش میں خلل نہ ڈالیں ۔پولیس کو اپنا کام کرنے دیں اور آپ اپنا کام کریں۔یعنی آپ لُٹتے رہیں اور محکمہ پولیس آپ کی لُوٹ مار سے انجوائے کرتا رہے۔ پولیس کسی لوٹ کھسوٹ کو نہیں روکے گی….

Shabbir khurshid khurshid

Shabbir khurshid khurshid

تحریر: پروفیسر ڈاکٹر شبیر احمد خورشید
shabbir23khurshid@gmail.com