تحریر : قادر خان افغان کراچی والے پاکستان کو سب سے زیادہ ریونیو دینے کے باوجود زندگی کی کئی بنیادی سہولتوں سے محروم ہیں ، ان کی نظریں ہمیشہ پنجاب اور وفاق پر لگی رہتی ہیں کہ ملک کو 70فیصد رپونیو کراچی دے رہا ہے لیکن ترقی لاہور میں نظر آرہی ہے، ملک کے اہم معاشی شہر واقتصادی شہ رگ کہلانے والے کراچی شہر کوسیاست کی بھینٹ چڑھاتے دکھائی دیتا ہے۔یہ وہی کراچی ہے جہاں سڑکیں پانی سے دھوئی جاتیں تھی ، آج کل سڑکیں سیوریج کے گندے پانی سے ڈھکی نظر آتی ہیں کہ” داغ تو اچھے ہوتے ہیں “، وہی کراچی جہاں ٹرام ٹرین اندرون شہر چلتی تھی ، لیکن وقت کے ساتھ ساتھ سرکلر ٹرین بھی کچھ اس طرح ختم ہوئی کہ ناظم آباد ، مجاہد کالونی کے پھاٹک پر پُل کی اب ضرورت نہیں رہی اور پُل کو گرین بسوں کے روٹ کے لئے مسمار کردیا گیا ۔ کروڑوں روپے مختلف چورنگی پر لگائے گئے ، جو شہری حکومت آتی ، خوب صورت چورنگیوں کو چھوٹا کرتی چلی جاتی ، یہاں تک کہ واٹر پمپنگ اسٹیشن کی موٹریں جہاں جہاں نصب ہیں ، اتنی ہی جگہ چورنگی کیلئے چھوڑ دی گئی ،کہ کراچی کی اصل خوب صورتی ختم ہوتی چلی گئی۔کراچی کے بڑے بڑے خوب صورت سٹرکیں کھنڈرات میں تبدیل ہوئیں تو کمائو پوت شہر کو سیاسی یتیم بنا دیا گیا۔
کراچی والے یہ سب کچھ چار و ناچار برداشت کرتے رہے ، کیونکہ اس کے علاوہ وہ کچھ کر بھی نہیں سکتے ، لاہورکی ترقی دیکھ دیکھ کر کراچی والے ٹھنڈی آئیں بھرنے لگے ، لاڑکانہ میں 90ارب کے ترقیاتی کاموں پر سب کی آنکھیں کُھلی کہ ، 90ارب روپے خرچ کرنے کے باوجود جیالوں کے شہر کا یہ حال ہے تو دو ، ڈھائی کروڑ نفوس کے شہر کراچی کیلئے تو روپوں کے بجائے کھربوں روپوں کی ضرورت ہوگی۔یا پھر کراچی والے اگر کوشش کریں تو وفاق میں نواز شریف ، پنجاب میں شہباز شریف ، خیبر پختونخوا میں مریم شریف ور سندھ میں حمزہ شریف کو باشاہت دے دیں ، تاکہ کم ازکم خاندانی مراسم کی وجہ سے ترقی محروم شہر کی قسمت جاگ اٹھے۔ لیکن کراچی والوں کی آنکھیں اور دل پھٹ گیا کہ لاہور کی تاریخی شناخت کو ختم کرنے کے بعد ترکی ماڈل بنانے کی خواہش رکھنے والوں کے پاس اتنا بجٹ بھی نہیں بچا تھاکہ مریضوں کیلئے سرکاری اسپتالوں میںبستر وں کا بندوبست کردیتے، سرد و یخ موسم میں مریضوں،( جو دور دراز علاقوں سے جدید لاہور میں علاج کے لئے آتے ہیں) ، کا علاج ہمارے ینگ ڈاکٹرز ٹھنڈے فرش پر کرتے نظر آئے ، شائد اس کی وجہ یہ ہو کہ اسپتالوں میں مریضوں کے علاج کے بجائے سڑکوں پر ینگ ڈاکٹرز ہڑتالوں اور دھرنوں کی عادت کی وجہ سے مریضوں کا علاج بھی زمین پر لیٹا کر کرتے ہیں ، اس لئے ان بے حسوں کو اس بات کا احساس نہیں کہ کسی کی جان جاتی ہے تو جائے۔کوئی سردی سے مرتا ہے یا جذبات کی گرمی سے ، کسی کو کوئی فرق نہیں پڑتا۔
کراچی والوں کے لئے یہ مناظر نئے نہیں ہیں ، وہ کراچی کے سول اسپتال، جناح اسپتال، NICH( بچوں کے اسپتال) سمیت سندھ بھر کے سرکاری اسپتالوں میں یہ مناظردیکھ دیکھ کر عادی ہوچکے ہیں ، لیکن انھیں غلط فہمی اس بات ہوئی کہ لاہور میں جو اتنی ترقی ہورہی ، گرین میٹروبسیں ، ہوائی اورینج ٹرینیں ، گریٹر پارک کی تعمیرات اور لیپ ٹاپ کی تقسیم پر اربوں ڈالرز خرچ ہو رہے ہیں تو اس کا مطلب یہ ہوگا کہ تعلیمی معیار اتنا ہائی فائی ہوچکا ہے کہ صوبائی حکومت نے تعلیم کی فراہمی کے اہداف حاصل کرلئے ہیں۔ پڑھا لکھا پنجاب کے بعد ، تگڑا پنجاب کے طور پر صحت عامہ کیلئے بھی پنجاب حکومت نے کامیابی کے جھنڈے گاڑ دیئے ہیں ، اس لئے تو ینگ ڈاکٹرز سب سے زیادہ ہڑتالیں کرتے نظر آتے ہیں کیونکہ وہ دن رات اتنی محنت کررہے ہوتے ہیں کہ ان کو ہر مہینے ایمرجنسی سمیت اسپتالوں میں تالے لگانے پڑتے ہیں ، کیونکہ پنجاب حکومت ان کی “محنت کا صلہ” انھیں نہیں دے رہی ۔ آئے روز مار دھاڑ ، مال روڈ پر ہڑتالیں ، دیکھ دیکھ کر کراچی والے سمجھتے تھے کہ شہباز شریف بڑی زیادتی کرتے ہیں ، لیکن اب کراچی والے سوچ رہے ہیں کہ لاہور کا یہ چہرہ تو چیچک زدہ ہے ، جس کی بد صورتی کو میک اپ کے ذریعے چھپایا گیا ہے۔ بدصورت چہرے پر لگے داغ ، گرین بس ، ہوائی اورینج ٹرین، گریٹر پارک کی رنگین چھم چھماتے فواروں سے چھپانے کی کوشش ہے، کراچی والے ہمیشہ یہ سوچتے تھے کہ ہمارے حکمرانوں کو نیند کیسے آتی ہوگی ، جب انھیں پتہ لگتا ہوگا کہ کتنے گھروں کے چراغ ، بے گناہ ایک دن میں گل کردیئے گئے ، کتنے غریب اسٹریٹ کرائم میں اپنی جمع پونجی سے محروم ہوگئے۔شائد کسی اجلاس یا عوامی جلسوں میں انھیں سوتے دیکھ کر اب احساس ہوتا ہے کہ شائد یہ رات بھر قوم کے درد میں سوتے بھی نہیں ،چن کتھاں گذاری ائی رات وے، اس لئے انھیں اجلاسوں میں اپنی نیند پوری کرنے کا موقع مل جاتا ہے۔
Minar e Pakistan
یہاں کراچی والوں کا یہ مقصد ہرگز نہیں ہے کہ لاہور میں ترقی نہیں ہونی چاہیے ، لاہوریوں کو جدید سہولیات نہیں ملنا چاہیے ، کراچی والے بس یہ چاہتے ہیں کہ ان کے ساتھ تو ان کے اپنے ہی ظلم کرتے رہے ہیں کم ازکم کراچی والوں کو مثال عبرت سمجھ کر اپنے اپنے شہروں کی حالت زار کو درست کرلو ۔ کراچی والے کسی من و سلوی کے انتظار میں نہیں ہیں ، کیونکہ انھوں نے خود ہی اپنوں پیروں پر کہلاڑی مارنے کی عادت اپنائی ہوئی ہے ، لیکن بڑا دکھ ہوتا ہے ، جب اربوں روپوں کے اشتہارات پر خرچ کرتے دیکھتے ہیں کہ کاش یہ رقم سرکاری اسپتالوں پر لگا دی جاتی تو ایک بستر پر تین تین مریضوںکا علاج نہیں کیا جاتا ، ٹھنڈے فرش پر لٹا کر کسی مریض کو موت کی آغوش میں نہیں جانے دیا جاتا ۔گردے کی ڈیلائسس کے لئے انتظار کی قطار کی وجہ سے موت کا شکار کوئی غریب نہیں ہوتا۔کراچی والوں کو اس بات پر بھی اعتراض نہیں کہ معاشی اقتصادی ترقی میں اس کردار70فیصد ہے تو پورے سندھ میں90فیصد ، اس کی 500کچی آبادیاں والے اس شہر کے باسی زندگی کی بنیادی ضرورتوں سے محروم کیوں ہے ؟۔ کیا ان 500کچی آبادی میں رہنے والے اس معاشی شہ رگ کی شریانیں نہیں ہیں کہ آج بھی ان علاقوںمیں موہن جوڈرو سے بھی کئی ہزار سال پرانا نظام زندگی ہے۔کراچی والے محنت کش ہیں ، کیا ہوا کہ وفاق کو کراچی سے منتقل کرکے پہاڑیوں میں آباد کرلیا گیا ، مفروضہ تو یہی تھا کہ مرکز کو محفوظ ہونا چاہیے ، لیکن سمندر کی وجہ سے کراچی ملک دشمنوں کے لئے غیر محفوظ قرار دیا گیا تھا تو دشمن ملک کے ساتھ جڑے شہر پر ملکی معیشت کا بڑا حصہ خرچ کرنا ، کونسے اصول کے تحت ہے۔ کیونکہ دشمن سب سے پہلے اپنے قریبی اہداف کو ہی نشانہ بناتا ہے۔
لاہور سمیت پاکستان کے تمام شہروں ، قصبات سے کراچی والوں کو کوئی بغض نہیں ، بلکہ انھیں شکوہ ہے تو حکمرانوں سے ، کہ انھیں کس جرم کی سزا دی جارہی ہے۔ کراچی نے پاکستان کو اقتصادی طور پر سنبھالا ہوا ہے ، لیکن اس کا یہ حال کردیا گیا کہ کئی عشروں سے کوئی نئی صنعت اس ساحلی شہر میں نہیں لگی، سرمایہ دار تو اپنا سرمایہ اٹھا کر کہیں بھی جا سکتا ہے۔سرمایہ دار تو پنجاب بھی گیا اور بنگلہ دیش بھی گیا ، اپنی معاشی تنگی دور کی ، لیکن سندھ کی غریب عوام کیا کرے ، بلوچستان کی عوام کہاں جائے ، خیبر پختونخوا میں قدرت کی تمام تر رعنائیوں کے باوجود سیاحت کی ترقی ، صرف مری ، کاغان تک محدود کیوں ہے َ، کا لام ، مرغزار ، ملعم جبہ سمیت سوات کی حسین وادیاں حکومتی توجہ کی منتظر کیوں ہیں؟۔کراچی والے تو لاہور اس لئے جاتے تھے کہ اس شہرکی مٹی کی بھینی بھنی خوشبو اور محسور کن تاریخی مقامات کو دیکھ کر اپنی سانسیں تر وتازہ کرلیں ، لیکن لاہور کو بھی ایک مشین میں ڈھال دیا گیا ، تاریخی لاہور تو اس مریض کی طرح بے حسی کا شکار ہوگیا جسے ٹھنڈے فرش پر لٹا کر ہمارے ینگ ڈاکٹرز نے قتل کردیا ۔یہ بھی عجیب نظام ہے کہ اگر کوئی انسان کسی انسان کو مار ڈالے تو وہ قتل کہلایا جاتا ہے ، لیکن ڈاکٹر کی لاپراہی و بے حسی کسی کی جان لے لے تو اس کو خدا کی رضا سمجھ کر چپ سادھ لی جاتی ہے۔
اگر میڈیا ڈگڈگی بجائے تو انکوئری کمیٹی بنا کر معاملے کو سرد خانے میں ڈال دیا جاتا ہے۔ کیا ڈاکٹر کے ہاتھوں لاپرواہی و بے حسی کی وجہ سے کسی انسان کی ہلاکت قتل نہیں ہے۔ کراچی والے بس لاہور والوں سے اتنا کہنا چاہتے ہیں کہ ہمیں تو ترقی اور سونے کی چڑیا سمجھ کر تباہ و برباد کرڈالا گیا ہے کہ کراچی کی آنے والے کئی نسلیں دہشت گردی کے مضمرات سے باہر نہیں نکل سکیں گی ، کم ازکم کراچی کو عبرت کا نشان سمجھ اپنی آنکھیں کھول لو۔یاد رکھو کہ اللہ تعالی کی عدالت میں کوئی وکیل کوئی گواہ کوئی اور نہیں وہ خود ہوگا ، اس کا جسم کا ایک ایک حصہ اُس کے ہر فعل کی گواہی دے گا ۔ جہاں نہ جھوٹ چلے گا ، نہ سفارش کام آئے گی۔ہر شخص کو اپنے اعمال کا جواب دینا ہوگا ۔ اگر کوئی یہ سمجھتا ہے کہ قدرت کے قانون میں پلی بارگنینگ ہے تو اس کو اپنی غلط فہمی ختم کردینی چاہیے ، وہاں ایک ایک عمل کا حساب کتاب ہوگا ، میزان ہوگی ، جہاں رب کائنات ذرے ذرے کا حساب لے گا ۔خدارا اپنے آنکھیں کھولو ، نصرت آرا بیگم(بل بتوڑی) نے علاج معالجے میں بے حسی پر گنگا رام اسپتال کی سیڑیوں پر دھرنا دیا اس پر لاہور والے خاموش کیوں ہیں ، کیا وہ بھی کراچی والوں کی طرح ہوگئے ہیں؟۔