کراچی جسے روشنیوں کا شہر کہا جاتا ہے۔ پاکستان سے محبت رکھنے والے اسے منی پاکستان کا لقب بھی دے چکے ہیں لیکن جب سے میں نے ہوش سنبھالا ہے۔کراچی کو کرچی کرچی دیکھا ہے۔اسے جلتے دیکھا ہے۔سمندر کے کنارے آباد یہ شہر تاریکیوں میں ڈوبتا جا رہا ہے۔اس کے چاروں طرف کالی بھیڑوں نے مورچے لگا رکھے ہیں۔یوں سمجھے پورے کا پورا کراچی یرغمار بنا ہوا ہے۔اس کی گلیاں ہوں یا محلے یا سڑکیں برساتی پانی کی بجائے خون سے جل تھل رہتی ہیں۔ہر طرف خوف ہراس کی فضا گردش کرتی رہتی ہے۔چہروں پر اداسی کے بادل منڈلاتے رہتے ہیں۔نجانے کراچی میں کب بہار آئے گی۔
کراچی تجارت میں اہم کردار ادا کرتا ہے۔یہی ترقی تو دشمن کو چبھتی ہے۔شازشی عناصر اسے نقصان پہنچانے میں سرگرم عمل رہتے ہیں۔بیڑا غرق ہو ان ابلیسوں کا جنہوں نے اس شہر کا امن برباد کر دیا ہے۔مائیں لٹ رہی ہیں۔بیٹیاں بے آبرو ہو رہی ہیں۔بیٹے معذور ہورہے ہیں۔باپ بچوں کی لاشیں اٹھا اٹھا کر غم سے نڈھال ہیں۔آئے روز دہشت گردی، ٹارگٹ گلنگ، خودکش حملے معمول بن گئے ہیں۔بوری بند لاشیں گفٹ کی جاتیں ہیں۔گٹر خون اگل رہے ہیں۔ہر حکومت آتی ہے اپنے مزے اڑاتی غائب ہو جاتی ہے۔کراچی کے معاملے میں نیند کی گولیاں کھا کر محو خواب ہو جاتی ہیں۔اپنی تجوریاں بھرنے والے حکمران،عوام کو تڑپتا،مرتا دیکھ کر شترمرغ کی طرح منہ چھپا لیتے ہیں۔نجانے کھوکھلے نعرے،جھوٹے وعدے کب تک چلیں گے۔؟ان کالی بھیڑوں کا احتساب کب ہو گا؟کالج کے لڑکے ،کراچی پراپنا سکہ جما چکے ہیں۔الطاف (بھائی لوگ)پاکستان سے باہر بیٹھ کر کراچی کے خیرخواہ ہے۔الطاف بھائی اگر کراچی کی عوام کے لئے سچے لیڈرہیں تو بیرون ملک منہ کیوں چھپاتے پھرتے ہیں۔
پاکستان آتے،کراچی آتے،عوام،شہری کیسے تڑپ تڑپ کر جان دے رہے ہیں ۔آنکھوں سے دیکھتے ۔مگر افسوس عوام کو خون کے آنسو رولانے والے مگر مچھ کے آنسو بہاتے نظر آتے ہیں۔ محترمہ بے نظیر بھٹوپر 12مئی کا حملہ میں کہاں بھولا ہوں۔کئی بے گنا ہ مارگئے۔کئی معذور ہوئے۔اب بھی کراچی اداس اداس سا ہے۔خوشیاں کب کی جا چکی ہیں ۔دن ڈیہاڑے،بیچ چوراہے،لوگوں کو بھیڑ،بکریوں کی طرح ذبح کیا جاتا ہے۔ہمارے محافظ آنکھوں پر سیاہ چشمہ لگائے اونگھ رہے ہیں۔انگلینڈ میں بیٹھا ایک شخص لاکھوں کی آبادی پر حاوی ہے۔حکومت اسی کی ہے۔سیاست اسی کی ہے۔راج اسی کا ہے۔ٹیلی فونک خطاب کرنے والا، پاکستان کی سرزمین سے لاکھوں میل دور ،انگریز،یہودوں کی سر پرستی میں بیٹھنے والا ،پاکستان کی کب خیر چاہتا ہے۔کیسے ممکن ہے کہ وہ پاکستان کا دوست ہے۔اگر ایسا ہے تو پاکستان آکیوں نہیں جاتا۔سیانے سچ ہی تو کہتے ہیںموت کے کھیل کھیلنے والے،اپنی موت سے گھبراتے ہیں۔اب تو قائداعظم کی روح تک کانپ اٹھی ہوگی۔جس نے پاکستان کو آزاد کرایا،اسی کا کراچی یرغمار بنا ہوا ہے۔جب درندہ صفت،بھیڑے کے روپ میں نیک سیرت، فرشتہ صفت انسانوں کو موت کے گھاٹ اتارتے ہوں گے۔زمین تڑپ اٹھتی ہو گی۔
Pakistan
آسمان بھی لرز جاتا ہو گا۔پاکستان پر جان نثار کرنے والے اپنی جان کی پروہ نہیں کرتے،اسی لئے تو خوشی خوشی جان دے دیتے ہیں۔جس کی تازہ مثال ایس ایس پی،چودھری محمد اسلم ہیں۔جن کو عوام نے چودھری کا لقب دیا۔جن کو متعد بار دھمکیاں بھی مل چکی تھیں۔لیکن انہوں نے پروہ نہیں کیاور اپنا کام جاری رکھا۔اب لوگ سو سو باتیں بنائیں،الزام طالبان پر آئے یا کسی اورجماعت پرجانے والا کب کا جا چکا ہے۔جنہوں نے اپنی بیوی کے سامنے پاک سرزمین کی مٹی اٹھا کر کہا کہ میں اس مٹی کا نمک کھاتا ہوں اس کے ساتھ غداری نہیں کر سکتا۔میں ان کو سلوٹ پیش کرتا ہوں۔بہادر ماں کا بہادر بیٹا تھا۔دشمن عناصر اس کے خلاف تھے اور ایس ایس پی چودھری محمد اسلم ان کے درد سر بنا ہوا تھا۔انہوں نے اس مرد مجاہد کوراستے سے ہٹا ہی لیا۔
لوگ کہتے ہیں ان کو مکمل پروٹو کول ملتا تھا مگر حقائق کچھ اور ہی ہیں۔ان کو پروٹوکول ملتا تو دوست کی گاڑی کیو ں کر استعمال کرتے۔حکومت،یا ذمہ دار لوگ اس قتل کا سراغ ڈھونڈ پاتے ہیں یا نہیںالگ معاملہ ہے۔لیکن ان کے بچوں کے سروں پر شفقت کا ہاتھ کوں رکھے گا۔
کراچی میں دہشت پھیلانے والوں آخر تم نے بھی کسی ماں کے پیٹ سے جنم لیا ہوگا۔اس زمین کو بھی ”ماں”کا درجہ حاصل ہے۔کوئی اپنی ماں کے ساتھ بھی غداری کرتا ہے۔تم اپنی ماں کا سینہ کیوں خون سے لت پت کر رہے ہو۔؟کم عمر بچوں کے سینوں پر گولی چلانے والوں تمھیں خوف نہیں آتا۔
تمھارے ضمیر مردہ کیوں گئے ہیں۔؟آخر کب تک خون کی ہولی کھیلتے رہو گے۔اب تو خدا کا نام لو،غریب عوام کو سکھ کا سانس لینے دو۔ان کے بچوں کو اسکول جانے دو۔ان کی عزتیں برباد کرنا چھوڑ دو۔خدا راہ میرے وطن،میرے کراچی کا امن لوٹا دو۔میرے کراچی کی روشنیاں واپس لوٹا دو۔کراچی پھر سے روشنیوں سے جگمگا اٹھے۔بہار آنے والی ہے ۔اس بہار میں میرے وطن کے ہرشہری کا چہرہ کھلکھلا اٹھے۔یا اللہ !ہم آپ سے بدست دعا ہیں۔میرے وطن کے دشمنوں کو نیست ونابود کردے اور ہر طرف امن کا سماں کر دے آمین ثم آمین۔