کراچی منگھو پیر کے 2 قبرستان سے9 بچوں کی لاشیں نکالنے کا انکشاف

Graveyard

Graveyard

کراچی (جیوڈیسک) کراچی کے علاقے منگھوپیر کے 2 قبرستانوں سے 9 بچوں کی لاشیں نکالے جانے کا انکشاف ہوا ہے، لاشیں نکال کرکفن کو قبر کے قریب ہی پھینک دیا گیا، واقعے کی، تحقیقات جاری ہیں۔خطرہ صرف اسکولوں یا گلی محلوں تک محدود نہیں، بچے اب قبروں میں بھی محفوظ نہیں رہے، نشانہ ہیں کراچی کے قبرستان۔ کراچی کے بعض قبرستانوں سے بچوں کی لاشیں غائب ہونے کا انکشاف ہوا ہے۔ اس حوالے سے پہلے بات کرتے ہیں 60 سال پرانے سلطان آباد قبرستان کی، جو کراچی کے علاقے منگھوپیر میں واقع ہے۔ ایک مقامی شخص محمد موسیٰ نے اس قبرستان کے حوالے سے جیو نیوز کو بتایا کہ 11 جنوری کو وہ اپنی بچی کو دفنارہے تھے کہ ان کی نظر نزدیک ہی موجود ایک بچے کی تازہ قبر پر پڑی جس کا سرہانا کھدا ہوا تھا اور نامعلوم ملزمان لاش نکال کر لے جاچکے تھے۔

محمد موسیٰ نے رمضان نامی گورگن سے رابطہ کیا لیکن اُس نے لاعلمی ظاہر کی۔ اس صورتحال کو دیکھتے ہوئے محمد موسیٰ ہر روز چند گھنٹے قبرستان میں گزارنے اور اپنی بیٹی کی قبر کا پہرہ دینے پر مجبور ہے۔سطان آباد قبرستان کے بعد جیو نیوز کی ٹیم پہنچی آفریدی گوٹھ قبرستان کیونکہ یہاں بھی چھوٹے بچوں کی لاشیں غائب ہونے کی اطلاعات ہیں، طریقہ وہی ہے کہ پہلے قبر کو سرہانے سے کھودا جاتا ہے اور کفن وہیں پھینک کر لاش غائب کردی جاتی ہے۔ شروع لوگوں کا خیال تھا کہ یہ جانوروں کا کام ہے لیکن ہر واردات کے بعد کفن کا صحیح سلامت اور صاف ستھرا ہونا اس خدشے کو تقویت دے رہا ہے کہ یہ کسی جرائم پیشہ نیٹ ورک یا آدم خوروں کا کام ہے۔ دوسری جانب پولیس نے ان واقعات کی تحقیقات شروع کردی ہے اور لوگوں کو مشورہ دیا ہے کہ وہ اپنے طور پر بھی قبرستانوں کی نگرانی کریں۔

پولیس نے متاثرہ قبرستانوں میں جاکر شواہد تو جمع کئے لیکن تحقیقی افسران کا زیادہ زور اسی بات پر ہے کہ یہ جانوروں کی کارستانی ہے۔ متاثرہ قبرستانوں میں مقامی انتظامیہ یا محکمہ اوقاف کی جانب سے چوکیداری کا کوئی انتظام دِکھائی نہیں دیا۔پولیس کا موقف اپنی جگہ لیکن سوال یہ ہے کہ اگر یہ کام جانور کررہے ہیں تو، اُن کا نشانہ صرف بچوں کی قبریں ہی کیوں ہیں۔ اس کے علاوہ جس صفائی کے ساتھ قبریں کھودی گئی ہیں، وہ بھی کسی جانور کا نہیں، بلکہ انسان ہی کام لگتا ہے۔لاشوں کا قبروں سے غائب ہونا اور اُن کی بے حرمتی نیا جرم نہیں، کراچی سمیت ملک بھر میں یہ اذیت ناک سلسلہ کئی سال سے جاری ہے مگر اس کے باوجود قبرستانوں کی نگرانی کے موثر اقدامات نہیں کئے جارہے۔