کراچی (اصل میڈیا ڈیسک) نئے کورونا وائرس کی عالمی وبا میں کراچی میں حالیہ دنوں کے دوران اموات کی شرح میں اچانک اضافہ نوٹ کیا گیا ہے۔ کیا شرح اموات میں اس اضافے کی وجہ کورونا وائرس ہے؟ طبی ماہرین اور انتظامیہ نے اس مفروضے کو مسترد کر دیا ہے۔
کراچی میں ماہرین اور انتظامیہ کا کہنا ہے کہ کورونا وائرس کے باعث دیگر امراض کی طبی سہولیات کی بندش دراصل شرح اموات میں اس اضافے کی وجہ ہے اور ایسا ہر گز نہیں کہ اموات کا سبب چھپایا جا رہا ہے یا پھر ایسا ہے کہ ٹیسٹ کی سہولت نہ ہونے کے باعث یہ معلوم ہی نہیں کیا جا رہا کہ حالیہ دنوں میں مرنے والوں کی بیماری کی وجہ کیا بنی۔
کراچی میں کورونا وائرس کے پھیلاو اور حکومت کی ٹیسٹ کرنے کی صلاحیت میں کمی کے باعث ایک نئے خوف نے جنم لیا ہے۔ اسی دوران شرح اموات میں اضافہ بھی عوامی پریشانی میں شدت لے آیا ہے۔
یہ معاملہ پندرہ اپریل کو اس وقت میڈیا کی شہ سرخیوں میں آیا، جب وزیراعلٰی سندھ مراد علی شاہ نے ایک نیوز کانفرنس سے خطاب میں انکشاف کیا کہ ہسپتالوں میں مردے لانے کے عمل میں اضافہ ہوا ہے۔
مراد علی شاہ کا کہنا تھا، ”جب کسی انسان کی موت ہو جاتی ہے تو اس کا کورونا ٹیسٹ ہونا ممکن نہیں، لیکن چند لاشوں کے ایکسرے کرنے پر ماہرین نے بتایا کہ ان کے پھیپھڑے ایسے لگ رہے تھے، جسے کورونا سے متاثرہ مریضوں کے ہوتے ہیں، 15 مرحومین ایسے ہسپتال لائے گئے، جن کے بارے میں یہ شبہ تھا کہ وہ کورونا کے مریض ہیں مگر ٹیسٹ نا ہونے کی وجہ سے انہیں کورونا کا مریض قرار نہیں دیا جاسکا لیکن ان کی تدفین ہم نے کورونا ایس او پی کے تحت ہی کرائی۔‘‘
شہر کے سب سے بڑے ہسپتال جناح پوسٹ گریجویٹ میڈیکل سینٹر کی ڈائریکٹر ایمرجنسی ڈاکٹر سیمی جمالی کہتی ہیں کہ رواں ماہ ہسپتال میں لائے جانے والی ڈیڈ باڈیز( مردوں) اچانک زیادہ ہو گئیں، ”یومیہ 15 سو سے 16 سو مریض ایمرجنسی میں لائے جاتے تھے، لاک ڈاؤن کے باعث اب یہ تعداد نصف ہو گئی ہے لیکن اگر گزشتہ ماہ کا اسی مہینے سے موازنہ کیا جائے تو مردے لائے جانے والے واقعات میں 21 فیصد اضافہ ہوا ہے، ان کی وجہ موت معلوم نہیں کی جا سکی، ورثا وجہ موت بتانے سے گریزاں ہوتے ہیں، خصوصا کورونا کے معاملے پر تو لوگ بہت ہی حساس ہو گئے ہیں۔‘‘
ایدھی فاؤنڈیشن کے سربراہ فیصل ایدھی نے بتایا کہ ایدھی ہومز میں گزشتہ 13 روز کے دوران 388 میتوں کو غسل دیا گیا، جن کے لواحقین نے وجہ موت سانس لینے میں دشواری بتائی تھی لیکن انہیں صرف اس بنا پر کورونا کا مریض قرار نہیں دیا جا سکتا کیونکہ کورونا کی وجہ سے اس وقت کراچی کے بیشتر ہسپتالوں میں دیگر میڈیکل ایمرجنسیز کا علاج بند ہے، یہ بات درست ہے کہ گزشتہ برس ان ہی 13 دنوں میں غسل کے لیے لائی گئی میتیوں کی تعداد موجودہ تعداد کے مقابلے میں تقریبا نصف تھی۔
فیصل ایدھی کا کہنا ہے، ”خدشہ یہ بھی ہے کہ شرح اموات میں اضافے کی وجہ او پیڈیز کا بند ہونا، بہت سے ہسپتالوں کا فنکشن نہ کرنا اور ڈاکٹرز کی عدم دستیابی بھی ہو سکتی ہے کیونکہ دیگر بیماریں بھی پیچییدہ ہو رہی ہیں، غسل کے لیے لائے گئی اکثر میتیں ہسپتال بھیجی گئی تھیں اور لواحقین نے پوچھنے پر وجہ موت بتانے سے گریز بھی نہیں کیا۔‘‘
ماہر امراض سینہ ڈاکٹر خالد محمود کہتے ہیں کہ ہسپتالوں میں او پی ڈیز کی بندش سے صورت حال بہت زیادہ مشکل ہوتی جا رہی ہے۔ مریضوں کو ہسپتال پہنچنے کے باوجود علاج فراہم نہیں کیا جا رہا ہے۔ ابتدا میں حکومت نے شہریوں سے اپیل کہ کہ بلاضرورت ہسپتال نا جائیں اور کورونا کے خوف سے ہسپتالوں کی او پی ڈیز بند کر دی گئیں لہذا مریضوں کا ہسپتال آنا کم ہو گیا اور یہ وجہ ہے کہ اموات میں اضافہ ہوا ہے۔‘‘
یہ بھی پڑھیے: کورونا وائرس: پاکستان میں مرنے والوں کی عمریں کیا تھیں؟
ڈاکٹر خالد محمود نے بتایا، ”لاک ڈاون میں 12 روز بعد جب کلینک دوبارہ کھولے گئے تو کراچی سے کئی کلو میٹر دور سے فشار خون کا ایک ایسا مریض لایا گیا، جسے دوا میسر نہیں تھی جس کی وجہ سے اس کا بلڈ پریشر بہت بڑھ گیا تھا اور اس کی دماغ کی شریان پھٹ گئی تھیں، کھارو سے میرے کلینک تک لواحقین اس مریض کو چار ہسپتالوں میں لے کر گئے لیکن کسی نے اسے دیکھنے تک کی زحمت نہیں کی۔ میں نے کوشش کر کے اسے سول ہسپتال میں داخل کرایا مگر وہ جاں بر نہ ہو سکا،‘‘
کراچی میونسپل کارپوریشن کے ڈائریکٹر قبرستان اقبال پرویز نے ڈووئچے ویلے کو بتایا کہ ان کے ماتحت 41 قبرستان ہیں، جن میں گزشتہ 6 ماہ کے دوران 31 قبرستانوں میں 13 ہزار 9 سو 93 میتیں دفن کی گئیں، جن میں سے اپریل میں 15 روز میں 7 سو 66 افراد کی تدفین کی گئی ہے، جو معمول کے مطابق ہے۔
ایک صوبائی وزیر نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ ہسپتالوں میں اگر کسی مریض کا کورونا ٹیسٹ مثبت آجائے تو ڈاکٹرز اور پیرا میڈیکل اسٹاف اس کو اٹینڈ کرنے سے گھبراتے ہیں، اگر آنے والے دنوں میں یہ صورت حال برقرار رہتی ہے تو حالات بہت خراب ہو سکتے ہیں۔ کراچی کے تین بڑے نجی اسپتالوں کی انتظامیہ نے کورونا بحران کے بعد سے کئی مریضوں کے لیے ہسپتال کے دروازے بند کر دیے ہیں۔ ہسپتال انتظامیہ نے گنجائش اور اسٹاف کی کمی کا بہانہ بناتی رہی اور مریض چل بسے۔