تحریر: واٹسن سلیم گِل کراچی اس وقت تاریخ کے انتہائ نازک دور سے گُزر رہا ہے ۔ پاکستانی قوم میں کراچی کے حوالے سے نہایت بے چینی پائ جاتی ہے ۔ کیوں کے کراچی کی بقا پاکستان کی بقا ہے ۔ کراچی کی سیاسی خبروں میں ہر روز کوئ نہ کوئ نیا دھماکا ہو رہا ہے ۔ میں پاکستانی ہونے کے ساتھ ساتھ کراچی وال بھی ہوں اور اپنے شہر کے حوالے سے جزباتی بھی ہوں ۔ ویسے تو کراچی کے ساتھ امتیازی سلوک گزشتہ 6 دہائیوں سے ہے مگر اس وقت بھی کوئ حکومت یا ادارہ کراچی کے حوالے سے سنجیدہ نظر نہی آ رہا ہے۔ کراچی پر قبضے کی یہ جنگ اس شہر کے باسیوں کو مضید تقسیم کر رہی ہے اور یہ شہر برباد ہو رہا ہے ۔ کراچی کی سب سے بڑی زمہ دار سیاسی جماعت ایم کیو ایم ہے ۔ مگر الطاف حسین کی چند غلطیوں نے اس شہر کو مضید مشکلات میں ڈال دیا ہے۔ میں ہر گز صرف الطاف حسین کو موردالزام نہی ٹھرا رہا ہوں بلکہ اس میں سندھ حکومت ، وفاقی حکومت اور اسٹیبلیشمنٹ برابر کی حصہ دار ہیں۔ ان میں سے کوئ بھی مسلئے کا حل تلاش کرنے میں سنجیدہ نظر نہی آرہا ہے ۔ ہر کوئ اس آگ پر اپنے ہاتھ سیک رہا ہے ۔ ایم کیو ایم کو اس شہر میں بہت محبت ملی ۔ اور لوگ الطاف حسین کو اپنا نجات دہندہ سمجھنے لگے ۔
Altaf Hussain
الطاف حسین نے بھی اپنی بہترین سیاست سے ایم کیو ایم کو کراچی ، حیدرآباد اور سندھ کے چند شہری علاقوں میں ناقابل تسخیر بنا دیا ۔ مگر الطاف حسین کے تکبر اور گھمنڈ نے جلد ہی ایم کیو ایم میں انتشار پیدا کرنا شروع کر دیا ۔ پہلے فوج اور دیگر اداروں کے خلاف اشتعال انگیز بیانات، پھر معافی ۔ اور تو اور الطاف حسین اپنے ہی ایم این اے ، ایم پی اے اور سینٹرزکی عزت اور احترام کو پس پُشت ڈال کر ان کو بھری میٹینگز میں میڈیا کی موجودگی میں ڈانٹنے لگے ۔ متحدہ کے قائد کا یہ رویہ پارٹی میں انتشار کا سبب بنا ۔ اس کے علاوہ ایم کیو ایم کو کمزور کرنے میں بہت بڑا ہاتھ آصف زرداری کا بھی ہے ۔ یہ میں نے پہلے بھی لکھا تھا کہ آصف زرداری اپنی شاطر سیاست سے ایم کیو ایم کے بیڑے میں سوراخ کر رہے ہیں ۔ 2010 سے لیکر 2012 تک پانچ بار ایم کیو ایم سندھ حکومت کا حصہ بنی اور پھر باہر آگئ ۔ کسی نے غور نہی کیا کہ ہو کیا ریا تھا؟۔ آصف زرداری الطاف حسین سے ایک ہاتھ ملاتے تھے اور دوسرے ہاتھ سے وہ مرزا صاحب کو اور سندھ حکومت کو اشارہ کرتے تھے ۔ کراچی میں ایم کیو ایم کو زلیل و خوار کیا جاتا تھا ۔ الطاف حسین اس چال کو سمجھنے کے بجائے غصے سے حکومت سے باہر آنے اور پھر واپس نہ جانے کے بڑے بڑے دعوے کرتے تھے ۔
میڈیا پر ایم کیو ایم بھی اپنے قائد کے دعوؤں کو سپورٹ کرتی تھی ۔ مگر جیسے ہی زرداری صاحب کے سفیر جناب رحمان ملک صاحب لندن پہنچتے تھے سب ختم ہو جاتا تھا ۔ یہ تماشہ اگر ایک بار ہوا ہوتا تو بات الگ تھی ۔ یہ تماشہ دو سال میں پانچ بار ہوا ۔ جس کا ایم کیو ایم کراچی پر بہت برا اثر ہوا ۔ ۔ میڈیا پر ایم کیو ایم کے نمایندوں کا تماشہ بن گیا۔ کئ بار ایسا ہوا کہ ٹی وی ٹاک شوز میں ایم کیو ایم کے نمایندے اپنے قائد کا دفاع کر رہے ہوتے تھے ۔ مگر اسی پروگرام میں الطاف حسین صاحب برائے راست فون کر کے اپنے نمایندوں کی بات کو جھٹلا دیتے تھے۔ ان ساری باتوں کے باوجود میں اب بھی یہ سمجھتا ہوں کہ ایم کیو ایم یا الطاف حسین کو دیوار سے لگانا کراچی کو ایک بار پھر تباہی کی طرف لے جانے کے مترادف ہو گا۔ آج پاکستان کا ایک ایک بچہ جانتا ہے کہ ایم کیو ایم (ک گروپ ) کے پیچھے کون سے فرشتوں کا ہاتھ ہے ۔
Anees Qaim Khani
یہ گروپ جس میں مصطفی کمال ، انیس قائم خانی اور ڈاکٹر صغیر کے علاوہ اب افتخار احمد اور وسیم آفتاب بھی شامل ہیں ۔ حیرت انگیز طور پر انیس قائم خانی جس کو ڈاکٹر عاصم کے کیس میں نامزد کیا گیا ہے اور ناقابل ضمانت ورانٹ جاری کئے گئے تھے ۔ اب وہ آزاد گھوم رہا ہے ۔ کوئ پوچھنے والا نہی ہے۔ دھُل گئے ۔ وسیم آفتاب اے پی ایم ایس او کے متحرک راہنما متحدہ کے یوتھ وینگ کے سربراہ رہے ، یہ وہی یوتھ ہے جس پر الزامات ہیں کہ یہ زبردستی زکوات اور فطرہ اور قربانی کی کھالیں جمح کرتے ہیں۔ بھتہ لیتے ہیں ۔ ان پر گھوسٹ ملازم کے طور پر کئ سا لوں سے تنخواہ لینے کا بھی الزام ہے اور سب سے بڑھ کر ان کو چائنا کٹینگ کا بادشاہ بھی کہا جاتا ہے ،یہ بھی دھُل گئے ۔ اس کے علاوہ ایم کیو ایم کے بانیوں میں شمار کئے جانے والے یہ متحدہ کے باغی سب کے سب نہ صرف خود کو پاک صاف قرار دے رہے ہیں بلکہ متحدہ کے تمام کے تمام ممبرز کو بھی بے گناہ قرار دے رہے ہیں اور صرف ایک شخص کے کاندھوں پر ٹارگٹ کلینگ ، دہشتگردی اور بھتہ خوری کا الزام لگا رہے ہیں ، یعنی ایک شخص نقاب پہن کر لندن سے پاکستان آتا ہے یہ تمام جرائم کرتا ہے اور لندن بھاگ جاتا ہے ۔
یہ بھی زیادتی ہے کہ اتنی بڑی جماعت کے قائد کے ہاتھ پاؤں باندھ کر مقابلے کے لئے میدان میں اتار دیا جاتا ہے، اور چاروں طرف دشمنوں کو حملے کے لئے کھلا چھوڑ دیا جاتا ہے۔ رہا سوال الطاف حسین کے “را” کا ایجنٹ ہونے کا تو جب تک یہ ثابت نہی ہو جاتا میں الطاف حسین کو انڈیا کا ایجنٹ نہی سمجھتا۔ یہ الزام 1992 سے آج تک ان کے ساتھ ہے مگر ثابت نہی ہو سکا ہے ۔ کسی کو بھی مجرم ثابت کرنے کے لئے آپ کو ایسے ثبوتوں کی ضرورت ہوتی ہے جن کو آپ کورٹ آف لا میں ثابت کر سکیں ۔اور الزام صرف الزم ہے ۔ محترمہ فاطمہ جناح ، زوالفقار علی بھٹو ، ولی خان ، محمود خان اچکزئ ، بے نظیر ، اکبر بگٹی ، عطا اللہ مینگل ،نجم سیٹھی ، پیپلز پارٹی (ال زوالفقار) آصف زرداری ، نوازشریف سب پر کبھی نہ کبھی بھارتی ایجنٹ کے الزام لگے ہیں ۔ کچھ پر تو یہودی ایجنٹ کے بھی الزام ہیں مگر کچھ ثابت نہی ہوا۔
یہ ایک شرمناک حقیقت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے حب الوطنی کا سرٹیفیکیٹ مانگتے رہتے ہیں۔ جنرل نصیربابر کے دور میں متحدہ بھارتی ایجنٹ قرار دی جاتی ہے پھر یہ ہی متحدہ مشرف کے دور میں دُھل جاتی ہے ۔ میں یہ سمجھتا ہوں کہ متحدہ میں مائنس ون فارمولہ پاکستان کو نقصان پہنچائے گا۔ اسٹیبلشمنٹ، اور وفاقی حکومت کو اس تجربے سے پرہیز کرنا چاہے۔ یہ بات بھی ریکارڈ پر ہے کہ زوالفقار مرزا نے لیاری گینگ کو اسلحہ متحدہ کے خلاف استمال کرنے کے لئے دیا تھا۔ اور رینجرکو آپریشن کے دوران کراچی میں پیپلز پارٹی کے علاقوں میں سخت مزاحمت کا سامنا تھا۔ مگر یہ بات بھی یاد رکھنے کی ہے کہ ابھی تک متحدہ کے علاقوں میں کسی بھی گروپ کی جانب سے فوج یا رینجر پر ایک بھی گولی نہی چلی