کراچی (جیوڈیسک) چیف جسٹس افتخار محمد چودھری نے کراچی پولیس کی رپورٹ پر تسلی کا اظہار کرتے ہوئے ریمارکس دیے ہیں کہ اس وقت مطمئن ہوں گے جب گرفتار ملزموں کا ٹرائل ہوگا۔ ثبوت کے بغیر کارکردگی بے اثر ہو جائے گی۔ شہادت کے بغیر کوئی بھی عدالت سزا نہیں دے سکتی۔
چیف جسٹس افتخار محمد چودھری کی سربراہی میں پانچ رکنی لارجر بنچ کراچی بد امنی کیس کی سماعت کر رہا ہے۔ پولیس چیف شاہد حیات نے کراچی آپریشن سے متعلق رپورٹ سپریم کورٹ میں جمع کرا دی ہے۔
چیف جسٹس نے رپورٹ پر تسلی کا اظہار کرتے ہوئے ریمارکس دیے کہ اس وقت مطمئن ہوں گے جب گرفتار ملزموں کا ٹرائل ہوگا۔ چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ گرفتار ملزموں کے خلاف کیا شہادتیں ہیں؟۔ ثبوت کے بغیر کارکردگی بے اثر ہو جائے گی۔
شہادت کے بغیر کوئی بھی عدالت سزا نہیں دے سکتی۔ ایڈووکیٹ جنرل نے عدالت کو بتایا کہ سندھ حکومت 200 نئے تفتیشی افسر بھرتی کر رہی ہے۔ تفتیشی افسر اور پراسیکیوٹرز خوفزدہ ہیں۔ گزشتہ روز پراسیکیوٹر عبدالمعروف پر حملہ بھی ہو چکا ہے۔
انہوں نے عدالت کو بتایا کہ نعمت رندھاوا قتل کیس دوسرے صوبے میں منتقل کیا جا رہا ہے۔ ایڈووکیٹ جنرل سندھ کا کہنا تھا کہ حکومت نے 46 اسلحہ ڈیلروں کے لائسنس منسوخ کئے جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ مختلف وارداتوں میں غیر قانونی اسلحہ استعمال کیا جاتا ہے۔
جسٹس جواد ایس خواجہ نے سوال کیا کہ افغانستان کی سم پاکستان میں کیسے استعمال ہوتی ہے؟۔ ان کا کہنا تھا ڈی پی او نصیر آباد نے افغانستان کی سم میں پیش کی تھیں جس پر اٹارنی جنرل نے عدالت کو بتایا کہ پاکستانی کمپنیاں دوسرے ملک کی سم بلاک نہیں کر سکتیں۔ غیر ملکی سموں کا معاملہ وفاقی حکومت کے سامنے رکھا ہے۔