تحریر: سید انور محمود پورئے ملک میں لوڈشیڈنگ کا عذاب آیا ہوا ہے، گرم موسم میں حکومت کی نااہلی کی وجہ سے زیادہ لوڈ شیڈنگ ہورہی ہے، جسکی وجہ سےاس سال لوگوں کی اموات میں بہت زیادہ اضافہ ہوا ہے ۔کراچی میں گزشتہ کئی دن سے گرمی کی شدید لہر نے انتہائی سنگین صورتحال اختیار کر لی ۔سرکاری اور غیرسرکاری خبروں کے مطابق کراچی میں گرم موسم ، لوڈ شیڈنگ اور پانی کی قلت کی وجہ سے ایک اندازئے کےمطابق چار روز کے دوران جاں بحق ہونے والوں کی تعداد دو ہزار ہو گئی ہے جبکہ کراچی کےہسپتالوں نے چار روز میں بارہ سوسے زائد افراد کے جاں بحق ہونے کی تصدیق کی ہے، سینکڑوں بدنصیب بے بس افراد ایسے تھے جنہوں نے گھروں میں دم توڑا اور انہیں ہسپتال نہیں لایا گیا۔ اندرون سندھ حیدرآباد، ٹھٹھہ اور تھرپارکر میں شدید گرمی اور حبس سے ہلاکتوں کی تعداد 43 ہو گئی ہے۔ جبکہ ملک کے دوسرے حصوں میں بھی 50 سے زیادہ افراد گرمی سے دم توڑ گئے، موت کا رقص اب بھی جاری ہے۔
بے حساب لوگوں کےمرنے کی وجہ شدید گرمی کے ساتھ ساتھ لوڈ شیڈنگ اور پانی کی عدم دستیابی ہے۔ لوڈ شیڈنگ اور پانی کی سہولیات کی ذمہ داری وفاقی اور صوبائی حکومتوں کی ہے، لیکن افسوس وفاقی اور صوبائی حکومتیں اس سانحے کی ذمہ داری کو قبول کرنے کو تیار نہیں۔ وفاقی حکومت اور اُس کے وزرا یہ کہتے ہوئے نہیں تھک رہے ہیں کہ اُنکی کوئی ذمہ داری نہیں ہے، وفاقی وزیر عابد شیر علی کا کہنا ہے کہ کوئی گرمی سے مرجائے تو حکومت اُسکی ذمہ دار نہیں۔ سندھ کی صوبائی حکومت نے کراچی میں ہونے والی اموات کا سارا ملبہ کے الیکٹرک پرڈال دیا اور کے الیکٹرک کےمطابق اُس نے تو لوڈ شیڈنگ کی ہی نہیں ، کچھ ٹیکنیکل وجوہات کی وجہ سے کراچی کے کچھ علاقوں میں بجلی ضرور بند ہوئی تھی۔ چلیے چھٹی ہوئی دو ہزارکے قریب افراد مرگئے لیکن کوئی ذمہ داری لینے کو تیار نہیں۔
مسلم لیگ (ن) کے صدر نواز شریف ”دیکھو دیکھو کون آیا، شیر آیا، شیر آیا“،کےنعرے کی گونج میں 2013ء کے انتخابات کے جلسوں میں عوام کی پریشانیوں کا ذکر کرتے تھے، وہ بجلی کی لوڈشیڈنگ ختم کرنے، امن و امان قائم کرنے،مہنگائی اور بےروزگاری کوختم کرنے کے وعدئے کر رہے ہوتے تھے۔ انتخابی جلسوں کے دوران اُنکے بھائی اور پنجاب کے وزیر اعلی شہباز شریف تو روز اپنی پارٹی کی طرف سے یہ دعویٰ کررہے ہوتے تھے کہ صرف دو سال میں لوڈشیڈنگ ختم کردینگے اوراگردو سال میں لوڈشیڈنگ ختم نہ ہو تو آپ میرا نام بدل دیں، لوڈشیڈنگ تو ختم نہیں ہوئی، بہتر ہوگا کہ وہ خود اپنا نام بدل لیں۔ نواز شریف اپنےجلسوں میں آصف زرداری کو مہنگائی، لوڈ شیڈنگ اور امن و امان کے مسلئے پر کوس رہے ہوتے تھے۔ عوام سے بڑی معصومیت سے معلوم کرتے تھے آپکے علاقے میں بجلی کتنے گھنٹے نہیں آتی ہے۔ نواز شریف نے 5 جون 2013ء کو وزارت عظمی کا حلف اُٹھایا اور اپنے تمام وعدوں اور انتخابی منشور کو فراموش کربیٹھے۔ یکم اکتوبر 2013ءکومرئے پر سو درئے کے مصادق رہی سہی کسر بجلی پر دی جانے والی سبسڈی ختم کرکے عوام پر مہنگائی کے کوڑئے برسائے گے تھے۔ پاکستانی عوام جو پہلے ہی مہنگائی، بیروزگاری، دہشتگردی، ٹارگیٹ کلنگ، بھتہ خوری اوراسٹریٹ کرائم سے بدحال تھے مزیدبدحال ہوگئے۔ نواز شریف نےشیر کےانتخا بی نشان پرعوام سے مہر لگوانے کے لیے عوام کو اس خوش فہمی میں مبتلا کیا کہ وہ حکمران بن گے تو عوام کا مقدر بدل دینگے، پانچ سال تک پیپلزپارٹی سے ڈسی ہوئی قوم ایک اور جھانسے میں آگی اور صرف چار ماہ میں ہی شیر آدم خور شیر بن گیا تھا۔ مرحوم ابن صفی نے کہا تھا کہ عملی لوگ کبھی دعوے نہیں کرتے،بلکہ دعوے ہمیشہ بزدل کیاکرتے ہیں۔
Load Shedding
مسلم لیگ (ن) کے انتخابی منشور میں ’توانائی‘ کا لفظ 42 مرتبہ استعمال کیا گیا اور یہ وعدہ کیا گیا تھا کہ توانائی کی قیمت میں کمی لائی جائے گی اور لوڈشیڈنگ ختم کی جائے گی۔لیکن ہوا اُسکے برعکس، لوڈشیڈنگ بڑھ گئی اوربجائے قیمت کم کرنے کے اضافہ کردیا گیا، بڑی ڈھٹائی سے کہا گیا کہ عوام کو یہ کڑوی گولی نگلنی ہوگی۔چلیے عوام نے یہ کڑوی گولی بھی نگل لی لیکن پھر بھی اُنکو اُنکی ضرورت کے مطابق بجلی میسر نہیں ہے۔ اُسی زمانے میں سپریم کورٹ کے ازخود نوٹس میں چیف جسٹس کے ریمارکس’’غریب کو مت ماریں‘‘ حکومت کے منہ پر ایک بھرپور طمانچہ تھا کیونکہ عوام کی نمایندہ سپریم کورٹ نہیں بلکہ نواز شریف ہیں۔ جو کام عوامی نمایندہ ہونے کی وجہ سے نوازشریف کو کرنا چاہیے وہ سپریم کورٹ کررہی تھی۔ پانی و بجلی کے وفاقی وزیر خواجہ آصف جو کبھی عوام کے دکھ درد میں ہروقت روتے تھے، آج اُنکا انداز فرعونیت کا سا ہے اور وہ یہ سننا بھی گوارہ نہیں کررہے ہیں کہ کراچی میں دو ہزار کے قریب افراد اُنکی حکومت کی نااہلی کی وجہ سے مرگئے بلکہ اُن کا کہنا ہے کہ لوگ بجلی کے بل ادا نہیں کرتے اسلیے صرف اُن علاقوں میں لوڈ شیڈنگ کی جاتی ہے جہاں بجلی چوری ہوتی ہے۔ لیکن دوسری طرف ملک میں چلنے والے کارخانوں کی ایک بڑی اکثریت گیس اور بجلی کی چوری سے ہی چل رہے ہیں، اور یہ بات خواجہ آصف کو بتانے کی ضرورت نہیں کہ زیادہ تر ایسے کارخانے اور فیکٹریاں سیاستدانوں کی ملکیت ہیں، جہاں سرکاری ملازمین اُن کے دست راست ہیں۔
ایک اندازئے کے مطابق دو کڑوڑ کے قریب انسانوں کا شہر بدنصیب کراچی جو گذشتہ 25 سال سے لاقانونیت کا شکار ہے، دنیا کے چند بڑئے شہروں میں آتا ہے، ملک کا معاشی حب بھی ہے۔لیکن افسوس یہ ہے کہ آج اس شہر کو جس مقام پر ہونا چاہیے تھا یہ اُس سے بہت دور ہے۔ گذشتہ 25 سال سے اس شہر کی نمایندگی ایم کیو ایم کے پاس ہے، لیکن ایم کیو ایم یہ دعویٰ نہیں کرسکتی کہ اُس نے کراچی کے عوام کےلیے کچھ کیا ہے علاوہ اُس پریڈ کے جب مصطفی کمال کراچی کے میر تھے۔ 2008ء کے انتخابات کے بعد 2013ء تک مرکز اور سندھ میں پیپلز پارٹی کی حکومت رہی ہے، ایم کیو ایم بھی پیپلز پارٹی کی اتحادی کے طور پر حکومت میں شامل رہی ہے لیکن اُس پورئے دور میں کراچی کی نمایندگی کی دعویدار ایم کیو ایم نے کراچی کے بہت سارئے مسائل کے ساتھ ساتھ بجلی کی قلت کےلیے بھی کچھ نہیں کیا۔ 2013ء کے بعد سے بلاشرکت غیرئے پیپلز پارٹی کی سندھ میں حکومت ہے اور گذشتہ سات سال میں قائم علی شاہ کی حکومت نے عوام کے مسائل حل کرنے یا بجلی کی قلت کو دور کرنے کی کوئی کوشش نہیں کی ، صرف ایک ہی کام کیا ہے اور وہ ہے کرپشن، جسکا واضع ثبوت گیارہ جون کو اپیکس کمیٹی میں ڈی جی رینجرز کی رپورٹ ہے، جس کے مطابق سندھ میں سالانہ 230 بلین روپے کی کرپشن ہورہی ہے۔ اس رپورٹ میں آصف زرداری اور اُنکی پیپلز پارٹی کہاں کہاں ملوث ہیں یہ جلدہی پتہ چل جائے گا لیکن آصف زرداری اپنے جرائم سامنے لانے پر فوج پر برس پڑئے۔
Karachi Heat Deaths
صدارت کے منصب سے فارغ ہوتے وقت سابق صدر آصف زرداری کو وزیراعظم نواز شریف نے ایوان وزیراعظم میں ایک الوادعی ظہرانہ دیا۔ ظہرانے میں نوازشریف نےاور آصف زرداری نے جوتقاریر کیں وہ”تو مجھے حاجی کہہ میں تجھے حاجی کہوں” کے مصادق تھیں۔ وزیراعظم نواز شریف نے اپنی تقریر میں بہت ساری باتوں کے علاوہ کہا تھا کہ”میرا اور آصف زرداری کا ایک جیسا ایجنڈا ہے”۔ گذشتہ دو سال سے نواز شریف اُسی ایجنڈئے پر کام کرتے رہے ہیں، لیکن آج اپنی اپنی سیاست چمکانے کےلیے بجلی بحران پر حکومت سندھ اور وفاقی حکومت کے درمیان اختلافات اور الزام تراشی میں شدت آگئی ہے۔ حکومت سندھ کے وزراء کا کہنا ہے کہ وزیراعظم نوازشریف کو سابق صدر آصف زرداری اور وزیر اعلیٰ سندھ سید قائم علی شاہ خطوط لکھ چکے ہیں اجلاسوں میں خود مسائل بتاچکے ہیں اس کے باوجود وزیراعظم نواز شریف اور اُنکے وفاقی وزراء سنی ان سنی کرتے رہے ہیں۔ جبکہ وزیر مملکت برائے پانی و بجلی عابد شیر علی نے بھی سندھ حکومت کی طرح سے کہا ہے کہ کراچی میں لوگوں کی ہلاکتوں کی ذمہ دار کے الیکٹرک ہے، عابد شیرعلی نے مزید کہا کہ کے الیکٹرک نے گزشتہ پانچ برسوں میں ایک میگاواٹ بجلی بھی سسٹم میں شامل نہیں کی۔ وفاق 650 میگاواٹ بجلی معاہدے کے مطابق کے الیکٹرک کو دے رہا ہے۔ سندھ حکومت کو لوگوں کو ریلیف فراہم کرنے کے لئے متبادل انتظامات کرنے چاہئے تھے ہر معاملہ وفاق کے کھاتے میں ڈالنا اچھی بات نہیں ہے۔انہوں نےانوکھی منطق اپنائی کہ لوگ بجلی نہ ہونے سے نہیں مرتے۔ لوڈشیڈنگ کے مسئلے پر حکومت کیخلاف سازش ہو رہی ہے۔
لوڈشیڈنگ کی وجہ سے آئے دن امن و امان کا مسلئہ ہوتاہے۔ اگر نواز شریف ملکی مسائل پر ذرا بھی توجہ دیتے، بجلی کے بحران میں کچھ بہتری لاتےتو شاید کراچی میں دو ہزار کے قریب افراد کی موت کا سانحہ پیش نہیں آتا۔ مسلم لیگ (ن) کی حکومت نے یہ ثابت کردیا ہے کہ وہ عوام کی دوست نہیں ہے اور اُس کو عوامی مسائل سے کوئی دلچسپی نہیں ہے۔ جس وقت کراچی میں لوگ مررہے تھے وفاقی اور سندھ کی حکومتوں سمیت اُن سیاسی لوگوں کے کھوکھلے نعروں کی بھی موسم نےقلعی کھول کر رکھ دی ہے جو کل تک نعرے لگا کریہ دعویٰ کرتے تھے کہ کراچی ہمارا شہر ہے۔ پاکستان کی معاشی شہ رگ کراچی کے عوام بجلی اور پانی کو ترس رہے ہیں، وفاقی حکومت ہو یا صوبائی حکومت انہیں عوام کے دکھ درد تکلیف اور پریشانیوں سے کیا غرض، گرمی سے بے حال و متاثرین کی داد رسی کے لیے بھی رینجرز کو کیمپ لگا نا پڑا، جب ہر مشکل آفت میں چاہے سیلاب ہو یا زلزلہ گرمی کا طوفان ہو یا ناگہانی حادثہ پاک فوج موجود رہے پھر اقتدار و حکمرانی کی عیاشی بھی دو خاندانوں میں کیوں گردش کرتی رہے حکومت و اختیار بھی فوج کو دے دیں کم از کم بحیثت ایک ادارے کے وہ عوام کو تو ایک نظر سے دیکھے گی۔
اس وقت کراچی سمیت پورا ملک حالت جنگ میں ہے قدرتی آفات کو حکومتوں کی نا اہلی نے ملک الموت میں بدل دیا ہے، موسمیاتی تغیرات معمول کا حصہ ہیں ان حالات سے نبرد آزما ہو نے لیے حکومت میں اہلیت اور حوصلہ چاہیے جو فی الواقع نظر نہیں آرہا۔ کراچی میں دو ہزار کے قریب افراد کی ہلاکتوں کی ذمہ داری لینے کو کوئی تیار نہیں لیکن یہ سب جانتے کہ ان ہلاکتوں کی ذمہ داری ایم کیو ایم، پیپلز پارٹی اور پاکستان مسلم لیگ (ن) عایدہوتیں ہیں ،کیونکہ یہ تینوں سیاسی جماعتیں کسی نہ کسی طریقے سے کراچی پر حکمرانی کرتی رہیں ہیں یا کررہی ہیں، لہذا یہ ہی عوام کے سامنے جوابدہ ہیں کہ” کراچی میں بارہ سو افراد کی اموات کیوں ہوئیں؟”۔ انا للہ وانا الیہ راجعون، اللہ ہم پر اپنا رحم و کرم کرے۔ آمین!