تحریر : محمد اشفاق راجا سابق گورنر سندھ ڈاکٹر عشرت العباد کراچی سے سیدھے دبئی منتقل ہوگئے ہیں، اب ٹھیک طرح سے یاد نہیں کہ جب جنرل (ر) پرویز مشرف نے انہیں ”ڈرائی کلین” کرکے گورنر کے منصب پر بٹھایا تھا تو وہ براہ راست لندن سے کراچی آئے تھے یا براستہ دبئی پہنچے تھے۔ کہا جاتا ہے کہ ان کے خلاف جو مقدمات درج تھے، وہ سب جھوٹے تھے۔ اگر ان میں کوئی سچائی ہوتی تو وہ چودہ سال تک گورنر کیسے رہ سکتے تھے۔ ابھی چند روز پہلے ہی ان کے سابق دوست مصطفی کمال نے کہا کہ ان کے پاس دہری شہریت تھی، پہلے بھی بعض حلقے ایسی باتیں کرتے تھے لیکن کبھی کسی نے دھیان ہی نہ دیا۔ جنرل پرویز مشرف نے نہ صرف انہیں گورنر بنایا بلکہ بعض ایسے اختیارات بھی سونپ دئیے جو آئین میں گورنر کو نہیں دئیے گئے، بلکہ وہ صوبائی چیف ایگزیکٹو (وزیراعلیٰ) کے اختیارات ہیں لیکن صوبے میں شہری اور دیہی سندھ کی تقسیم کچھ ایسی مستقل ہوئی ہے کہ آئین کی شقیں بھی ان کے سامنے بے اثر ہو جاتی ہیں۔ خیر اگر دوہری شہریت والا شخص گورنر بن سکتا ہے تو پھر کچھ بھی ہوسکتا ہے، ہمارے ملک میں تو بعض اوقات وزیراعظم بھی باہر سے درآمد کئے جاتے ہیں، ایک زمانے میں معین قریشی کو باہر سے بلاکر نگران وزیراعظم بنا دیا گیا۔
کہا جاتا ہے کہ ان کے پاس پاکستان کا شناختی کارڈ بھی نہیں تھا وہ بھی انہیں کہیں راستے میں سپرد کیا گیا۔ نگران وزیراعظم تو وہ بن گئے لیکن اس عرصے میں ان کے دل میں یہ خواہش بھی ابھری کہ کیوں نہ وہ ملک کی مستقل خدمت کریں۔ انہوں نے رخصت ہوتے وقت قوم سے جو الوداعی خطاب کیا تھا، اس کے بین السطور میں یہ خواہش بھی جھلکتی تھی لیکن ان سیاسی کھلاڑیوں نے جو معین قریشی سے زیادہ طاقتور تھے ان کی یہ خواہش پوری نہ ہونے دی۔ اسی طرح شوکت عزیز بھی اچھی بھلی بینکاری کرتے کرتے جنرل (ر) پرویز مشرف کی نگاہوں میں آگئے اور انہوں نے انہیں بینکاری چھڑوا کر اپنی کابینہ میں وزیر خزانہ بنا دیا، ان کا اصل مقام وزارت خزانہ نہیں، وزارت عظمیٰ تھی، لیکن مشکل یہ تھی کہ وہ عام انتخابات میں کسی بھی حلقے سے الیکشن جیتنے کی پوزیشن میں نہیں تھے۔ چنانچہ سیاسی گاڈ فادر نے یہ طے کیا کہ پہلے انہیں وزیر خزانہ بنایا جائے پھر کسی ضمنی الیکشن میں منتخب کروا کے وزیراعظم کا منصب ان کی نذر کر دیا جائے۔ چنانچہ ایسا ہی ہوا۔
میر ظفر اللہ جمالی سے استعفا لے کر چودھری شجاعت حسین کو چالیس روز کے لئے وزیراعظم بنا دیا گیا اور ان کے ذمے لگا دیا گیا کہ شوکت عزیز کو کسی حلقے سے ایم این اے منتخب کرایا جائے تاکہ وہ وزیراعظم بن سکیں۔ چنانچہ ان کے لئے ایک نہیں دو حلقے خالی کرائے گئے ایک حلقہ تھرپارکر میں وزیراعلیٰ ارباب غلام رحیم کے رشتہ دار نے خالی کیا اور دوسرا حلقہ اٹک میں چودھری شجاعت حسین کے عزیز سے خالی کروایا گیا، وہ دونوں حلقوں سے ایم این اے منتخب ہوئے، پھر ایک نشست رکھی اور دوسری چھوڑ دی۔ بطور وزیر خزانہ اور وزیراعظم انہوں نے اس ملک کو کیا دیا اور انہوں نے اگر اس عرصے میں ملک کی ایسی خدمت کر دی تھی تو پھر وہ سیاست سے اچانک کیوں غائب ہوگئے؟ مورخ کو ان سوالوں کا جواب تلاش کرنا ہوگا، لیکن وہ خود 2008ئ کا الیکشن لڑنا چاہتے تھے اور بڑے دھڑلے سے اعلان کیا کرتے تھے کہ یہ الیکشن ان کی مسلم لیگ اپنے میرٹ پر جیتے گی، لیکن اس کے سربراہ چودھری شجاعت حسین اتنے ستم ظریف نکلے کہ انہیں ٹکٹ ہی نہ دیا۔ حالات اتنے بدل چکے تھے کہ جو پرویز مشرف شوکت عزیز کو بڑے ارمانوں سے بیرون ملک بینکاری کا شعبہ چھڑوا کر سیاست میں لائے تھے اب کی بار انہیں اپنی بنائی ہوئی مسلم لیگ کا ٹکٹ تک نہ دلا سکے۔
Shaukat Aziz
شوکت عزیز کو بے نیل و مرام واپس جانا پڑا جہاں انہوں نے اپنے میدان سیاست میں کودنے کی کہانی ایک کتاب ”بینکنگ سے خارزار سیاست تک” (انگریزی) میں بیان کی ہے۔ مسلم لیگ (ق) کا خیال تھا کہ شوکت عزیز کو ٹکٹ دے کر ضائع نہیں کرنا چاہئے کہ وہ کسی بھی حلقے سے جیت نہیں سکتے۔جنرل پرویز مشرف اس وقت دبئی میں ہیں اور اگر اندرون ملک مختلف عدالتوں میں ان کے خلاف چلنے والے مقدمات ختم ہو جائیں تو وہ آج ہی واپس آنے کے لئے تیار ہیں لیکن اس سے پہلے ان کی کوشش یہ ہے کہ ایم کیو ایم کے مختلف دھڑے متحد ہوکر قیادت کا تاج ان کے سر پر رکھ دیں۔بی این پی کے مطابق ایم کیو ایم کے کئی رہنما اس وقت دبئی میں ہیں، آصف علی زرداری کا بھی مستقل قیام یہیں ہے۔ اس لئے کوئی نہ کوئی سیاسی مشاورت تو ہو ہی رہی ہوگی، لیکن کیا ایم کیو ایم انہیں اپنا لیڈر مان لے گی؟ یہ کہنا ابھی قبل از وقت ہے، البتہ یہ ممکن ہے کہ ڈاکٹر عشرت العباد سمیت ایم کیو ایم کے جن رہنماؤں کے ساتھ وہ اپنے اقتدار کے دوران میں نیکیاں کرتے رہے جواب میں وہ بھی احسان کا بدلہ احسان سے دینے کی کوشش کریں لیکن بظاہر یہ ممکن نظر نہیں آتا کہ ایم کیو ایم کے جو بھی دھڑے مختلف ناموں سے کام کر رہے ہیں وہ سب اکٹھے ہوکر جنرل (ر) پرویز مشرف کی جھولی میں گر جائیں۔
یہ تو ہوسکتا ہے کہ ڈاکٹر عشرت العباد اپنے ہم خیال دوستوں اور ساتھیوں کو ساتھ ملا کر کوئی نیا دھڑا تشکیل دیں اور اس کی قیادت ان کے سپرد کر دیں، پوری ایم کیو ایم کا ان کی قیادت میں متحد ہونا فی الحال ممکن نظر نہیں آتا، خصوصاً ایسی صورت میں جب وہ واپس آنے کے لئے بھی تیار نہیں، کیونکہ انہیں عدالتی مقدمات سے خوف آتا ہے۔ ویسے انہوں نے اپنی جو ”آل پاکستان مسلم لیگ” بنا رکھی ہے، بہتر ہے وہ اس کی تنظیم سازی کریں اور اپنے ہم خیالوں کو اس جماعت کے بینر تلے متحد کریں۔ شیخ رشید اور محمد علی درانی کو بھی ان کا ساتھ دینا چاہئے کیونکہ دونوں یکے بعد دیگرے جنرل (ر) پرویز مشرف کی کابینہ میں اطلاعات کے وزیر تھے۔
شیخ رشید اگر اپنی جماعت کو ان کی آل پاکستان مسلم لیگ میں ضم کر دیتے ہیں تو دونوں جماعتوں کا بھلا ہوسکتا ہے۔ کم از کم دو بڑے نام تو ایک جماعت میں نظر آئیں گے۔ جنرل (ر) پرویز مشرف کو اگر ایم کیو ایم کے دھڑوں نے اپنا لیڈر مان لیا تو جنرل پرویز مشرف اپنی سیاست کو کراچی سے باہر نکالنے میں کامیاب ہوسکتے ہیں لیکن ابھی تو صرف کراچی میں ان کے حق میں بینر لگے ہیں۔ وال چاکنگ بھی شروع ہے جو کسی اور جگہ نہیں ہو رہی۔ اس کا مطلب یہ بھی ہوسکتا ہے کہ مہاجروں پر ان کی قیادت کا بوجھ لادنے کی تیاری ہو رہی ہے۔ اب دیکھیں دبئی میں جو کھچڑی پک رہی ہے، اس کا ذائقہ کیسا ہوتا ہے۔