کراچی (اصل میڈیا ڈیسک) کراچی میں المناک طیارہ حادثے کو ایک سال بیت گیا جس کی ابتدائی تحقیقاتی رپورٹ کے مطابق حادثے کی وجہ طیارے میں خرابی نہیں تھی بلکہ یہ حادثہ کلی طور پر پائلٹس اورائیر ٹریفک کنٹرولرز کی کوتاہی کی وجہ سے ہوا۔
ائیر کرافٹ ایکسیڈنٹ انویسٹی گیشن بورڈ کی ابتدائی رپورٹ سے اخذ کردہ نتائج کے مطابق حادثے کا شکار پائلٹ پہلے حد سے زیادہ پر اعتماد تھے مگر پھر کنفیوژن کا شکار ہوگئے، وائس ریکارڈر سے پتا چلا ہے کہ لینڈنگ کے وقت پائلٹس سیاست اور کورونا جیسے موضوعات پر گفتگو کر رہے تھے۔
ائیرٹریفک کنٹرولر نے دو مرتبہ خبردار کیا کہ طیارے کی رفتار اور بلندی دونوں بہت زیادہ ہیں ، وائس ریکارڈر کو ڈی کوڈ کرنے کے دوران کاک پٹ میں مختلف الارم بجنے کی آوازیں مسلسل سنائی دیں جنہیں پائلٹ اور معاون پائلٹ نے نظر انداز کردیا۔
لینڈنگ کی پہلی کوشش کے دوران دونوں پائلٹ مسلسل کنفیوژ رہے کہ لینڈنگ کریں یا دوبارہ چکر لگا کر مناسب بلندی اور رفتار کے ساتھ لینڈنگ کریں، لینڈنگ سے قبل ہی نہیں بلکہ پوری پرواز کے دوران ہی پائلٹس نے ائیر ٹریفک کنٹرولرز کی ہدایات پر عمل نہیں کیا۔
لینڈنگ گیئر نہ کھلنے کے بارے میں پائلٹوں کو مسلسل آگاہ کیا گیا مگر انہوں نے اس پر کان نہیں دھرے جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ جہاز نے پہلے بیلی لینڈنگ کی اور اس کے انجن رن وے سے ٹکرا کر ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہوئے۔
رپورٹ میں انکشاف کیا گیا کہ کنفیوژن کا شکار پائلٹوں نے رن وے کے عین قریب ایک لمحے کیلئے لینڈنگ گیئرنیچے کیا اور پھر اوپر کرلیا، اس موقع پر پھر نیا فیصلہ کیا کہ انہیں دوبارہ سے فضا میں چکر لگا کر لینڈنگ کرنی چاہیے، اس دوران ایروڈروم کنٹرول نے دیکھ لیا تھا کہ انجن زمین سے ٹکرائے ہیں، انہوں نے اس کی اطلاع کراچی اپروچ کو تو دی مگر پائلٹس کو آگاہ نہیں کیا اور خراب انجنوں کے ساتھ اسے دوبارہ فضا میں اٹھنے کی اجازت دے دی۔
یاد رہے کہ 22 مئی 2020 کو پی آئی اے کا لاہور سے کراچی آنے والا طیارہ رن وے سے چند سیکنڈ کے فاصلے پر آبادی پر گر کر تباہ ہوگیا تھا جس کے نتیجے میں جہاز کے عملے سمیت 97 افراد جاں بحق جب کہ دو افراد معجزانہ طور پر بچ گئے تھے۔