کراچی (جیوڈیسک) کراچی میں پولیس وین پر حملے کی ذمہ داری کالعدم تحریک طالبان پاکستان نے قبول کر لی۔ طالبان کا کہنا ہے کہ حملہ جعلی مقابلوں میں ساتھیوں کی ہلاکت کا بدلہ ہے۔
کالعدم تحریک طاالبان کے ترجمان شاہد اللہ شاہد نے پولیس اہلکاروں کی بس پر حملےکی ذمہ داری قبول کرتے ہوئے کہا ہے کہ کہ یہ کارروائی ہمارے ان ساتھیوں کے قتل کا انتقام ہے جنہیں گزشتہ دنوں کراچی، صوابی اور پشاور میں جعلی مقابلوں میں ہلاک کیا گیا۔ ایک ماہ میں 20 ساتھی جعلی مقابلوں میں مارے گئے۔
شاہد اللہ شاہد کا کہنا ہے کہ حکومت اور طالبان کے درمیان باقاعدہ جنگ بندی ہونے تک تحریک طالبان اپنے کیخلاف ہونیوالے کسی بھی حملے کا دفاع جاری رکھے گی۔ ترجمان کا کہنا ہے کہ حکومت کے لئے اس طرح کے واقعات کی روک تھام مذاکراتی عمل کی کامیابی کے لئے ضروری ہے۔
اُمید ہے ایسے واقعات روکنے کے لئے فوری اقدامات کئے جائیں گے۔ شاہد اللہ شاہد نے کہا ہے کہ غیر ملکی جریدے میں ان کے انٹرویو کو سیاق و سباق سے ہٹ کر شائع کیا گیا۔ انہوں نے انٹرویو میں مولانا فضل اللہ کے لئے ”خلیفہ” کا لفظ استعمال نہیں کیا اور انٹرویو میں حملے جاری رکھنے کے حوالے سے کوئی بات شامل نہیں ہے۔
واضع رہے کہ کراچی کے علاقے شاہ لطیف ٹائوں میں رزاق آباد پولیس ٹریننگ سنٹر کے قریب پولیس بس پر خود کش دھماکے سے 13 اہلکار جاں بحق اور متعدد اہلکاروں سمیت کم از کم 50 افراد زخمی ہو گئے تھے۔
خود کش بمبار نے بارود سے بھری گاڑی کو پولیس وین سے ٹکرا دیا تھا۔ دھماکا اتنا زوردار تھا کہ اس کی آواز دور دور تک سنی گئی۔ دھماکے سے قریبی عمارتیں بھی لرز گئیں۔ دھماکے کے وقت وین میں 70 سے زائد اہلکار موجود تھے۔
دھماکے میں ہلاک اور زخمی ہونے والوں کو جناح ہسپتال اور دیگر قریبی ہسپتالوں میں منتقل کر دیا گیا ہے۔ 8 پولیس اہلکاروں کی لاشیں اور 36 زخمی پولیس اہلکاروں کو جناح ہسپتال لایا گیا جبکہ 10 زخمیوں کی حالت تشویشناک ہے۔ زخمیوں کو سر، سینے اور ٹانگوں پر چوٹیں آئی ہیں۔
ہلاکتوں میں اضافے کا خدشہ بھی ہے تاہم ہسپتال میں ایمرجنسی لگا کر تمام زخمیوں کو طبی امداد دی جا رہی ہے۔ 3 لاشیں اور 10 سے زائد زخمیوں کو ہسپتال گلشن حدید بھی منتقل کیا گیا ہے۔ بم ڈسپوزل سکواڈ کا کہنا ہے کہ دھماکے میں 15 سے 20 کلو بارودی مواد استعمال کیا گیا۔ دھماکے میں بارودی مواد کے ساتھ ساتھ بال بیرنگ اور نٹ بولٹ بھی استعمال کئے گئے تاکہ جانی نقصان زیادہ ہو۔ ابتدائی رپورٹ کے مطابق دھماکے میں استعمال کی جانے والی گاڑی کی نمبر پلیٹ جعلی تھی۔۔ دھماکے کی جگہ سے انسانی اعضاءملے ہیں جنہیں ڈی این اے ٹیسٹ کیلئے بھجوادیا گیا ہے۔
دھماکے کے بعد پولیس اور رینجرز کی بھاری نفری نے علاقے کا محاصرہ کرکے قریبی علاقے کا سرچ آپریشن شروع کر دیا ہے جبکہ نیشنل ہائی وے کو ہر قسم کی ٹریفک کے لئے بند کر دیا گیا ہے۔ ادھر پو لیس حکا م کا کہنا ہے کہ گزشتہ روزسے پولیس کو نشانہ بنانے کی اطلاعات تھیں۔ سیکورٹی کو یقینی بنانے کے لیے اقدامات کر رہے تھے۔
خفیہ اداروں نے پولیس کو حملے سے آگاہ کر دیا تھا۔ ایڈیشنل آئی جی شاہد حیات کا کہنا ہے کہ کراچی میں امن و امان کے قیام میں دہشت گردی کا مسلسل سامنا ہے تاہم اس طرح کے دھماکوں سے پولیس کے حوصلے پست نہیں ہوں گے اور دہشت گردی کیخلاف جنگ میں کسی بھی قسم کی قربانی سے دریغ نہیں کریں گے۔ پولیس اہلکاروں پر حملہ بہت بڑا نقصان ہے۔ انہوں نے کہا کہ دہشت گردی کیخلاف ہماری جنگ جاری رہے گی۔
ادھر جناح ہال میں زخمیوں اور جاں بحق اہلکاروں کی فہرست آویزاں کر دی گئی ہے۔ صدر مملکت ممنون حسین، وزیراعظم میاں محمد نواز شریف، چاروں صوبائی وزرائے اعلی، گورنرز اور ایم کیو ایم کے قائد الطاف حسین نے دھماکے کی شدید الفاظ میں مذمت کی ہے۔