تحریر : پروفیسر ڈاکٹر شبیر احمد خورشید ہم اس شہرِ بے نوا کے باسی جس کا کوئی پرسانِ حال نہیں۔ سسکیوں اور آہوں میں ہم اپنی زندگیاں بسر کر رہے ہیں’’جہاں پتھر بندھے ہیں اور کتے آزاد ہیں‘‘ہمارے سیاسی لوگوں نے جو کلچر پروان چڑھایا اس کی آبیاری شائد بعض ادارے جی بھر کر کر رہے ہیں۔ یہاں ایک کو طاقت بخشی جاتی ہے اور جب وہ آپے سے باہر ہو جاتا ہے تو دوسرا گروپ اُس سے بھی زیادہ خطر ناک شکل میں مسلط کر دیا جاتا ہے۔ دہشت کے پالے لوگوں کو لوٹ مار اور ظلم و تشدد کے ذریعہ اپنے مقاصد کے حصول کیلئے لاکر میدان میں اتارر دیا جاتا ہے۔ یہاں کے اکثر علاقوں کے تھامنے برائے فروخت ہونے کے ساتھ ساتھ اپنے کاوبار کو خوب خوب چمکا رہے ہیں۔
کراچی کے جس علاقے میں بھی یہ لے پالک وارداتیں کرتے پھریں انہیں کوئی پکڑنے والا نہیں ۔پولیس یہاں مجرموں کی رکھوالی کرتی ہے۔ کہا جاتا ہے اس شہر سے لوٹا گیا پیسہ، گاڑ یاں اور مہنگے موبائل پو لیس کے چھوٹے سے بڑے ہر ہر رکن تک حصۃ بحیثیت جُسہ پہچادیا جاتا ہے۔آج کراچی کے سیاسی میدان میں ایک نیا گروہ متعرف کرایاگیا ہے ۔مگر ماضی کا پیدا کردہ گروہ پولیس کے سا تھ مل کر شہر میں کھلے عام وارداتیں کرتا پھر رہا ہے۔جس کو ہر تھانے کی پولیس کا پروٹیکشن بھی حاصل ہے جہاں کہیں بھی ایم کیو ایم کمزور ہوگئی ہے وہیں اُس گروہ کی راجدھانی قائم کر دی گئی ہے جس کو ماضی میں ہمارے ادارے سرپر بیٹھا کر لائے تھے۔ کوئی بھی تھانہ کسی بھی واردات کی ایف آئی آر درج نہیں کرتا ہے۔بلکہ دس پندرہ ہزار کی وادات پر تو شہریون کو پریشررائز کیا جاتا ہے کہ درخواست لکھ کر دیدیں کہ فلاں علاقے سے گذر رہا تھا۔
میرے اتنے پیسے اور موبائل گر گیا ہے۔تھانے سے شہری کو تھریٹ کیا جاتا ہے کہ اگر ایف آئی آر درج کراؤ گے تو اس کے سنگین نتائج بھگتنے کے لئے بھی تیار رہنا۔بعض شریف شہری جب پولیس کی من پسند درخوست لکھ کر دیدیتے ہیں تو اُلٹا اُن سے پانچ سو سے ہزار روپے اینٹھ لئے جاتے ہیں تب کہیں جا کر ان کی غلو خلاسی ہوتی ہے۔جب ہی تو پولیس نعرہ لگاتی ہے کہ ’’پولیس کا ہے فرض…….آپ کی‘‘اس اندھے گونگے بہرے ملک و معاشرے میں یہاں کی باسی زندہ لاشوں کی طرح جی رہے ہیں۔کوئی لوٹ جائے مار جائے ’’کس کے ہاتھوں پہ اپنا لہو تلاش کروں اداروں اور حکمرانوں نے پہنے ہیں دستانے‘‘ کوئی لُٹتا ہے لُٹ جائے مرتا ہے مرجائیپولیس صرف اپنے مفادات پر حرکت پذیر ہو گی۔
Karachi
آج کراچی شہر میں رینجرز کے ہوتے ہوئے بھی مجرم ٹولیوں کی شکل میں سڑکوں پر دندناتے پھررہے ہیں جنہیں پیچھے سے مکمل پولیس پروٹیکشن حاصل ہوتا ہے۔ایسا لگتا ہے رمضان کے مہینے میں ساری برکتیں پولیس اور ڈاکوؤں کے لئے قدرت نے وا کر دی ہیں۔شہری ربِ کائنات کی بارگاہ میں دعائیں کر کر کے تھک گئے ہیں ۔مگر نعمتیں ساری کی ساری پولیس اور ڈاکوؤں کا حصہ بنی ہوئی ہیں۔شہر کاکوئی حسہ تومحفوظ ہو!ہر جانب جرئم نے پر پھیلائے ہیں اور عیش کرنے والے عیاشیاں کر رہے ہیں۔
ہم بڑے فخر سے اپنے شہر میں سینہ تانے پھرا کرتے تھے۔ کہ صحافت کے شعبے سے تھوڑا سا تعلق ہے۔ مجرم شائد ہم سے بھی خوف کھاتے ہوں مگر کہاں؟؟؟خوف کی علامت تو پولیس اور ڈانزکے کارند ے ہیں جب ہمیں چار جانب سے چار موٹر سائیکلوں پر سوار غالباَ8َمسلح دہشت گردوں نے گنیں نکال کر گھیر لیا توان دہشت گردوں کے حکم پر گن پوائنٹ پرہمیں گاڑی کے شیشے کھولتے ہی بنی۔بس پھر کیا تھا دونوں جانب کے دہشت گردوں نے اس بڈھے کی ناصرف دھنائی شروع کردی بلکہ جیبوں میں جتنا پیسہ بینکس سے لے کر چلا تھا وہ سب کا سب چند ہی سیکنڈو ں میں چلتے روڈ پرچھین لیا گیا۔اگلے دن بعض اخباروں میں خبر لگی کہ سینئر کالم نگار اور رئٹر پرفیسر ڈاکٹر شبیراحمد خوشید کو8دشت گردوں نے 13 جون 2016کولاندھی سے پیچھا کرتے ہوئے کورنگی کے ناصر جمپُ کے پاس گاڑی کے گرد گھیرا دے پہلے گن پوائنٹ پر ان کی گاڑی رکوائی ۔ڈاکٹر شبیر احمد سمجھے کہ دہشت گرد فو ن چھننا چاہتے ہیں اہنوں نے موبائل نکالاتو دہشت گرد جن کی عمریں 18سے 25 سال کے درمیا ن تھیں دونوں جانب کے دروازے کھو ل کر انہیں ہتھیار وں سے بٹیں مار مار کر 65 سالہ کی ضعیف عمرکو لہو لہا ن کر دیااور انکی جیب سے ایک لاکھ روپے جو وہ بینک سے لا رہے تھے زبردستی ان کی پینٹ کی جیب سے نکال لئے اور ان کی گاڑی کی ونڈ اسکرین بھی ایک دہشت گرد نے اپنی گن مار کر توڑ دی۔
نزدیک ہی ایس ایچ او اندسٹریل ایریا پولیس کی سرکاری کار میں اپنے عملے کے ہمراہ موجو د تھے۔مگر پولیس نے و قوعے کے وقت کوئی مداخلت نہ کی ۔بلکہ ان دہشت گردوں کو اپنی کاروائی مکمل کرنے کا پورا پورا موقعہ دیا اوراس وقت کوئی کار وائی نہ کی ۔جیسے ہی یہ دہشتگرد اپنی دہشت گردی کی فتح کا جشن مناتے ہوئے چلتے روڈ پر فائرنگ کر تے ہوے مشکل سے ہزارا قدم پر پہنچے ہونگے کہ ایس ایچ او کو سینئر کالم نگار نے اپنی گاڑی کے پاس سے گذرتے دیکھا تو انہوں نے کئی بار ہارن دے دے کر ایس ایچ اوکی گاڑی کو رکوایا۔ جن کی وردی پرمکمل نام کی بجائے ’’سیال ‘‘لکھا ہوا تھا موصوف کو ڈاکٹر صاحب نے پورا واقعہ بتاتو موصوف نے ان سے پوچھا وہ کدھر گئے ہیں پروفیسر صاحب نے بتایا کہ اسی روڈپر تو ابھی فائرنگ کرتے ہوے وہ چارموٹر سائیکلوں پر بھاگے ہیں۔ وہ اپنا تعرف اور فون نمبر دے کر چلے گئے تو ڈاکٹر شبیر احمد پولیس اسٹیشن ( IAK,PS) رپورٹ لکھوانے کی غرض سے پہنچے انہوں اپنا تعرف بھی کرایا تھانے کے عملے نے ایف آئی آر درج نہ کی۔ بلکہ اُن سے کہا گیا کہ ہم کاروئی کرتے ہیں آپ یہ پرچہ ہسپتال لیجائیں اور اپنا ایم ایل او کر واکر لے آئیں۔تو ہم آپکی رپورٹ بھی درج کر لیں گے۔
Robbery
جناح ہسپتال سے ایم ایل او کی کاپی لیجا کر تھانے کو دی گئی تو اس وقت ایس ایچ او بھی موجود تھے مگران سے بار بار کے کہنے کے باوجود ایس ایچ او صاحب بھی ایف آئی آر درج کرنے کو تیار نہ تھے۔انہوں نے خود ہی اپنے ہیڈ محرر سے کہا کہ ڈاکٹر صاحب کی درخوست لکھ کر ان سے دستخط کروالیں(ڈاکٹر شبیر احمد سے کہا کہ آپ اس بزرگی میں کہاں عدالتوں کے چکر مجر موں کی شناخت کیلئے بار بار لگاتے پھریں گے؟) میں دو دن میںآپ کے مسئلے کو حل کردوں گا اور ڈاکٹر شبیر احمد سے کہا کہ اگر میں نے دودن میں آپ کا مسئلہ حل نہ کیا توآپ کی ایف آئی آر بھی میں خود کاٹوں گا۔مگر بد قستمی سے نہ تو ایف آئی آر کٹی او ر نہ ہی مجرموں کو پکڑا گیا۔
ہزر کوششوں کے باوجود بھی کورنگی انڈسٹریل تھانے اس وادات کی ایف آئی آر درج نہ کی لوگ بتاتے ہیں کہ مجرموں کو پولیس خود پروٹیکشن دیتی ہے۔اسکی مثال میرے ساتھ ہونے والا واقعہ ہے جب یہ واردات کی جارہی تھی توپولیس نزییک ہی کہیں موجود تھی مگر واردات کئے جانے کے بعد چند لمحوں میں پولیس کا میرے پاس پہنچ جانا معنی خیز ہے۔ہم سجھتے ہیں کہ پولیس میرے خلاف کی جانیوالی واردات کے وقت ان مجرموں کوشائدتحفظ دے رہی تھی ۔کہ اگر یہ عوام کے ہتھے چڑھ جاتے ہیں تو انہیں عوام کے چنگل سے نکال کر محفوظ طریقے پر ان کو اپنی حفاظتی کسٹڈی میں لیجائیں جبہی تو پولیس کا سلوگن ہے’’پولیس کا ہے فرض مدد آپ کی‘‘اس شارع پر ہر دوسرے تیسرے دن اس قسم کی وارداتیں ہوتی رہتی ہیں ۔ لوگ لُٹتے ہیں اور خاموش عزتوں کو بچانے کی فکر میں رہتے ہیں۔اس حولے سے سندھ حکومت ناکام لوگوں کی حکومت ہے جو عوام کو تو کم از کم کوئی ریلیف دینے کی اہلیت رکھتی نہیں ہے۔ہاں مجرموں کو یہ آسانیہے کہ وہجب اور جہاں چاہیں اپنیوارداتیں کرتے پھریں کوئی اں کو پکڑنے والا نہیں ہے۔پولیس لوگوں کی ایف آئی آر درج کرنے سے کیوں کتراتی ہے اس کا مطلب ہر شحص اچھی طرح سے سمجھتا ہے۔
Shabbir Khurshid
تحریر : پروفیسر ڈاکٹر شبیر احمد خورشید shabbirahmedkarachi@gmail.com