تحریر : ڈاکٹر میاں احسان باری نبیل گبول کا یہ کہنا کہ بانی ایم کیو ایم کا باب بند ہو گیا ہے اصولی طور پر یہ اس وقت ثابت ہو سکتا ہے جب آئندہ انتخابات ہو نگے۔الطاف حسین کو انٹر پول کے ذریعے گرفتار کرنے کے وارنٹ جاری ہو چکے ہیں خواہ کچھ بھی ہوتا رہے تینوں مہاجروں کی سیاسی پارٹیوں میں جیت بحرحال اسی کے ہاتھ آئیگی جو الطاف حسین کے فوٹو لہرائے گی یوں تو خصوصی مصلحت کے تحت تینوں گروپ بھیس بدلے ہوئے لوگوں کو لارا لپالگا رہے ہیںیہ بند پول اس وقت ہی کھلے گا جب انتخابات ہو نگے پاکستانی عجیب و غریب لوگ ہیں یہ 2018کے انتخابات تک الطاف حسین کی پاکستان کو تباہ کرنے والی باتیں بھول چکے ہوں گے اور یہ بھی عین ممکنات میں سے ہے کہ تینوں گروپ اندرونی طور پر متحد و متفق ہو کر اپنے اپنے جیتنے والے گھوڑوں کے لیے ایک دوسرے کی کامیابی کا سامان پیدا کرڈالیں تاکہ کوئی دوسری جماعت پی پی، پی ٹی آئی ،ن لیگ یا کوئی مذہبی گروہ بشمول جماعت اسلامی کراچی حیدر آباد و سکھر سے سیٹ نہ حاصل کرسکیں ۔بھلا یہ کیسے ممکن ہے کہ 4دہائی سالوں سے زائد مہاجروں کا گروگھنٹال بناقائد جس کے لیے نعرہ تھا”قائد کا جو غدار ہے وہ موت کاحقدار ہے” یکدم دلوں کے اندرون سے باہر نکل جائے ۔ اور ببانگ دہل اس کی شخصیت بھاری مینڈیٹ رکھنے والی ایسے غائب ہو جائے جیسے”گدھے کے سر سے سینگ” ایسا نا ممکنات میں سے ہے وہ اپنے پیرو کار مہاجروں کو کل کلاں یہ کہہ کر مطمئن کرسکتا ہے کہ بیرونی سامراجی قوتوں امریکہ اسرائیل بھارت سے مال مفاد لینے اور پارٹی کے لیے بھاری اسلحہ وصول کرنے کے لیے پاکستان کے خلاف باتیں کرنا ضروری تھا تاکہ مجھ پر مذکورہ ممالک کا” اصلی تے وڈا تابعدار “ہو نا ثابت ہو جائے۔
اس سے قبل جب الطاف حسین نے پاکستانی جھنڈا مزار قائد پر جلایا تھا اور بھارت پہنچ کر پاکستان کے وجود ہی کے خلاف تقریریں کی تھیں تو بھی مہاجروں نے اس کا ساتھ نہ چھوڑا تھا اور مہاجروں کے دل میں ذرا برابر ملال نہ آیا۔تو اب کون سی قیامت ٹوٹ پڑی ہے میں تو صرف مال بٹورنے اور راء کی مکمل امداد حاصل کرنے کے لیے یہ ساری آنکھ مچولی کھیل رہاہوں اگر پاکستانی عدالتیں اس کی تصویر اور تقریر پر پابندی نہ لگاتیں تو صاحب بہادر کاتو ٹی وی انٹرنیٹ میڈیا اس کی تقریر کا ایک ایک لفظ اور باڈی ایکشن سامعین تک پہنچا رہا ہوتا کہ یہ سبھی اپنا فرض عین سمجھتے تھے کہ خواہ کتنی ہی اہم خبر یا بریکنگ نیوز آجائے الطاف حسین کی تقریر میں کٹ پھٹ نہیں کرنی ۔ایسا کرنا گردن زدنی سے کم نہ ہوتا تھاانہوں نے تو مہاجروں کو اپنے قیمتی سامان فریج ،ٹی وی ،صوفیہ سیٹ اور فالتو برتن تک بیچ کرصرف اور صرف کلاشنکوف خریدنے کی کئی تقریروںمیں ترغیب دے رکھی تھی۔
پھر عمران خان کا نعرہ کہ ہم امریکی اتحادی افواج کے اسلحہ کے بڑے بڑے کنٹینرز اور خوارک نہیں گزرنے دیں گے جب تک ڈرون حملے بند نہیں کیے جاتے نے الطاف کے پیروکاروں کا کام اور بھی آسان کر ڈالا۔قطاروں میں لگے اسلحوں سے بھرے کنٹینروں سے انھیں اسلحہ کے انبار ہاتھ لگ گئے سینکڑوں کنٹینرز تو ویسے ہی غائب کر ڈالے ہر بستی گلی وارڈ محلہ کے بیسیوں گھروں میں جدید ترین بیرونی اسلحہ ڈمپ کرکے اس کے ذخائر جمع کر لیے تاکہ” بوقت ضرورت ” کام آسکیں کہ الطاف بھائی کسی بھی وقت جذبات سے مغلوب ہو کر باغیوں کو کال دے سکتے ہیں کہ بنگلہ دیش کی طرح فوراً تمام اہم سرکاری اداروں پر قابض ہو جائو!۔
Altaf Hussain
بنگلہ بدھو مجیب الرحمن سے کیا الطاف کی ویلیو اس کے پیرو کاروں کے نزدیک کسی طور پر کم ہے؟اس کی حکم عدولی کرنے والے اور اس کے حکم پر من و عن عمل نہ کرنے والے اور ذرا برابر تبدیلی کا سوچنے والے کبھی کے زندہ درگور کیے جا چکے ہیں یہاں تک کہ کسی شخص نے عمران فاروق کی طرح لیڈری جگانے یا سراٹھانے کی جرأت ہی کی اور وہ کیفر کردار کو پہنچ گیا اور تو اور بھرے جلسوں میں یا کھلے عام اجلاس کے اندر ذاتی پرستاروںسے اپنی پارٹی کے اہم لیڈروں کو پٹوانا یا تھپڑلگوانا تو ان کا روزمرہ کا معمول رہا ہے۔ ساری تنظیم ختم اور خود ہم روٹھے میاں بن گئے ہیںاگلے دن سب بحال اور خود بھی راضی میاں مٹھو بن جانا جیسے کئی ڈرامے پاکستانیوں نے دیکھے ۔مصطفی کمال یا کوئی اور”بونا “کارکن غلطی سے یہ سمجھ بیٹھے کہ اب مہاجر ملک دشمنی کے دعوے دار الطاف کی تابعداری چھوڑ کر ان کے حمایتی بن گئے ہیں تو یہ سراسر انکا اپنے آپ کو دھوکا دینے کے مترادف ہے۔
یہ سبھی توایک ایک لفظ منہ سے سوچ کر اورتول کر نکالتے ہیں کہ کہیں” ٹھوکر نہ لگ جائے آبگینے (الطاف ) کو” یہ لیڈر کیا پدی اور کیا پدی کا شوربا کی طرح ہی ہیں ” قائد کا ایک اشارہ حاضر حاضر لہو ہمارا” جیسے نعرے جپنے والے اس کی بے عزتی برداشت کرلیں یہ کیسے ممکن ہے ؟بھارت میں کی جانے والی تقریر پربحکم پاکستانی سرکار اسے سر براہ مملکت جیسا پروٹوکول دیا گیا زبردست دعوت کا نتظام ہواجس میں بیشتر کاروباری پاکستانیوں کو دعوت نامے بھیج کر پاکستان کے خلاف کی نجانے والی تقریر کے لیے اکٹھا کیا گیا ۔زرداری صاحب نے حکمران بنتے ہی ایم کیو ایم کے دفتر نائن زیرو پہنچ کر اپنے کردہ ونہ کردہ گناہوں کی معافی مانگی تھی اور ان لیگی سربراہ اور ان کی طرف سے ڈھیروں روپوں کی صورت میں ” پیر صاحب ” کی خدمت میں چندے پیش کیے جاتے رہے ہیں۔
ایم کیو ایم کے مقتولین کے لیے بھی کروڑوں روپے ہر حکمران نے بطور تاوان ادا کیے ہیںاور الطاف حسین کی غدارانہ تقریر سے قبل تک یہی پالیسی جاری تھی کہ ہم تم کو نہیں چھیڑتے تم ہم کو نہ چھیڑناکھائو اور بانٹ کر کھائو جیسی پالیسی پر عمل کرتے ہوئے زرداری صاحب نے اپنی پانچ سالہ صدارتی معیاد پوری کر لی۔صرف پکڑ دھکڑ ،گرفتاریوں جیلو ں سے پاکستان دشمنانہ خیالات و نظریات لوگوں کے دلوں سے نہیں کھر چے جاسکتے کراچی حیدر آباد نا جائز اسلحوں کی بہتات سے آگ کا انبار بن چکے ہیںاب کوئی موثر دلیرانہ اقدام ہی سندھ کے بڑے شہروں کو آگ و خون کے کھیل سے نجات دلا سکتا ہے و گرنہ بابا سب کہانیاں ہیں۔