تحریر : میر افسر امان کے الیکٹرک نے کراچی میٹرو پولیٹین سٹی، جس کی آبادی دو کروڑ سے زیادہ ہے، جو پاکستان کو ٧٠ فی صد ریوینیو کما کر دیتا ہے کو پانچ دن کے اندر اندر تیسری مرتبہ تحریکی میں ڈبو دیا۔ ویسے تو کراچی میں غیر اعلانیہ بجلی کی لوڈشیڈنگ کا کوئی وقت مقرر نہیں۔ دن میں چار چار مرتبہ بجلی چلی جاتی ہے۔ گنجان بستیوں کی گلیوں میں بجلی کے تار ٹوٹ جاتے ہیں اور کئی کئی گھنٹے گلیوں میں پڑے رہتے ہیں کے الیکٹرک کا عملہ دیر سے آتا ہے۔ بجلی کے کھمبوں کے درمیان میں پرانی بجلی کی تاریں ڈھیلی ہو جانے کی وجہ سے تیز ہوا کی وجہ سے آپس میں ٹکرا جاتیںہیں زور سے دھماکہ ہوتا ہے پھر بجلی چلی جاتی ہے ۔ کے الیکٹرک کے عملے کو فون کرو تو دیر سے آتے ہیں بجلی کے تاروں کو درست کرتے ہیں جب تک پرانی بجلی کی تاروں کو کے الیکٹرک تبدیل نہیں کرتی یہ سلسلہ ہمیشہ کے لیے ختم نہیں ہوتا بلکہ بار بار ہوتا رہتا ہے۔ اصل میں جب سے کے الیکٹرک نے چارج سنمبھالا ہے بجلی کی پرانی لائنیں تبدیل نہیں کیں اُسی پرانی لائینوں سے کام چلایا جا رہا ہے۔
اس لیے محلوں گلیوںمیں بار بار بجلی کا نظام فعل ہوجاتا ہے۔آج تو عین سحری کے وقت کراچی کی بجلی بند ہو گئی۔ بچے رونے لگے بڑے پریشان ہو گئے۔گھروں میں پانی کی سپلائی بند ہو گئی۔ روضے دار بری طرح رُل گئے۔ کے الیکٹرک کہتی ہی کہ ٢٢٠ کے وی کی دو ٹرانمیشن لائنیں ٹرپ کر گئیں۔ٹرپنگ کے باعث ٣٠ گرڈ اسٹیشن متاثر ہوئے۔ کراچی کا٦٠ فی صد سے زیادہ علاقہ بجلی کی فراہمی کی معطلی کی وجہ سے تحریکی میں ڈوب گیا۔ ٢٤گھنٹے گزر جانے کے بعد بھی متعدد علاقوں میں بجلی بھال نہیں ہوئی۔بجلی کے فیل ہوجانے سے کراچی شہر کو ٣٢٥ گیلن پانی فراہم نہ کیا جا سکا جس پریشانی میں مزید اضافہ ہوا اور نظام زندگی یکسر معطل ہو گیا۔
پتہ نہیں اداروں نے کراچی کو کیا سمجھ رکھا ہے۔ پانی کے ادارے کراچی کو پانی سپلائی نہیں کر رہے۔کراچی کے کئی علاقوں میں پانی کی لینوں میں ایک بوند پانی نہیں آ رہا۔ راقم خودکورنگی روڈ ڈیفنس فیس ٢ کے سامنے اختر کالونی کارہائشی ہے۔ اختر کالونی سیکٹر اے گلی نمبر ٥میں عرصہ ٣ سال سے پانی کی لائنوں میں نہیں آرہا۔بستی میں واٹر ٹینکوں سے پانی خریدا جاتا ہے۔ جس بلڈنگ میں میری رہائش ہے اُس بلڈنگ میں تین فلیٹس ہیں جن میں ماہ وار ١٨٠٠٠ روپے کا پانی ٹینکروں والوں سے خریدا جاتا ہے فی فلیٹ ٦٠٠٠ روپے ادا کرنے پڑتے ہیں۔واٹر ٹینکر والوں نے پانی کے ریٹ ڈبل کر دیے ہیں۔ کل کسی لائن مین نے پانی کے نلوں میں گٹر کا پانی چھوڑ دیا۔ نلوں میں جب بچوں نے پانی کھولا تو پانی بد بودار تھا۔ ساری بلڈنگ پریشان ہو گئی۔
Karachi Water Crisis
انڈر گرونڈ ٹینک میں جو صاف پانی تھا وہ بھی گندھا ہو گیافوراً انڈر گراونڈ ٹینک کا پانی اوپر ٹنکی میں چڑھایا گیا اور نلکے کھول دیے گئے تاکہ گڑ کا سارا پانی بہہ جائے اس طرح صاف پانی کیا ملتا جو پانی خریدا گیا تھا اُسے بھی ضائع کرنا پڑا ورنہ پوری بلڈنگ کے رہاشی بیمار پڑھ جاتے۔ یہی حال صفائی ستھرائی کا ہے۔ کبھی بھی کے ایم سی کے کسی ادارے نے اختر کالونی کی گلیوں کی صفائی ستھرائی نہیں کی اور پانی اور صفائی کا بل باقاعدگی سے مل رہا ہے۔ اپنی مدد آپ کے تحت گڑ لائنوں کی صفائی کروائی جاتی ہے۔ پوری بستی کے روڈ ٹوٹے ہوئے ہیں۔ کچھ لوگوں نے چندہ جمع کر کے اپنی گلیاں سیمنٹ سے پکی کروائی ہیں۔ سٹی ناظم نعمت اللہ خان کے دور میں اختر کالونی کو لیز کے کاغذات ملے تھے مگر آج تک اس کالونی میں ترقیاتی کام نہیں ہوئے۔ ٢٠١٣ء کے انتخابات میں (ن) لیگ کے سندھ اسمبلی کے نمائندے کامیاب ہوئے تھے۔
اِن صاحب نے بھی اپنے ترقیاتی بجٹ میں سے بھی کالونی میں ترقیاتی کام نہیں کروائے۔جہاں تک ک الیکٹرک کا تعلق ہے تو اُس نے تو ظلم کا نظام چلایا ہوا ہے۔ کچھ سال پہلے پرانے میٹرز تبدیل کیے تھے وجہ بتائی گئی تھی کہ پرانے ہونے کی وجہ سے بہت آہستہ چلتے ہیں بجلی کا بل کم آتا ہے۔ اس طرح صحارفین سے کئی گنا زیادہ بل وصول کرنے شروع کیے۔اب کچھ ماہ پہلے دوبارہ میٹر تبدیل کر دیے گئے۔ عوام کو تو ان نئے میٹروں کے بارے میں کچھ بھی جانتے نہیں تھے البتہ اخبارات میں خبریں چھپیں تھی کہ یہ نئے میٹرز پہلے میٹرز سے ٣٠ فی صد تیز چلتے ہیں۔اب انصاف پسند حلقے اس بات کو خود غور کر سکتے ہیں کہ کے الیکٹرک کا یہ نظام ظلم کا نظام ہے کہ نہیں؟ بے بس عوام کس کے پاس جائیں کوئی سننے والا نہیں۔ یہ باتیں بھی اخبارات کی زینت بنتی رہی ہیں کہ کے الیکٹرک نے عوام سے بجلی کے بل بھی بڑھا کر وصول کیے جاتے رہے ہیں۔
جب سے کراچی الیکٹرک سپلائی کارپوریشن کونجی ادارے کو دیا گیا تھا تو عوام نے اس کی مخالفٹ کی تھی۔ کے ای ایس سی کی نج کاری کے بعدکے الیکٹرک نے کو ئی نئی انوسٹمنٹ نہیں کی۔ بجلی کی پیداوار میں ایک یونٹ کا بھی اضافی نہیں کیا۔ پرانی لائینوں کو تبدیل بھی نہیں کیا۔ ہاں کراچی کے شہریوں کے ساتھ ظلم کا نظام راج کیاجیسے اوپر بتایا گیا ہے۔ کہ میٹروں کی دو دفعہ تبدیلی اور بڑھا کر بل دصول کئے۔ کراچی میں پچھلے ٣٠ سال سے حکمرانی کرنے والوں نے بھی کچھ بھی نہیں کیا۔ اب کے الیکٹرک کے سامنے دھرنے کی باتیں کر رہے ہیں جو عوام کے ساتھ دھوکہ ہے۔
K Electric
کے الیکٹرک نے کراچی کی حکمران سیاسی اور لسانی پارٹیوں کے لوگوں کو رشوت کے طور پر بھاری تنخوائوں پر نوکریاں دیں تاکہ ان سے مدد لی جائے اور ظلم کے نظام پر کوئی بات نہ کر سکے۔ کے الیکٹرک کی لوڈ شیڈنگ کی وجہ سے کراچی کے ٢٥٠٠ لوگ شہید ہو گئے ۔ وزیر اعظم کو کراچی کا دورہ کرنا پڑا۔ وزیر اعلی سندھ جناب قائم علی شاہ صاحب نے بھی اخبارات میں شکایت کی تھی کہ کے الیکٹرک کے سربراہ سے فون پر بات ہوئی ہے مگر وہ کچھ بھی نہیں کرتے۔ ہیٹ اسٹروک کا ذمہ دار بھی کے الیکٹرک کو ٹھیرایا گیا۔ کے الیکٹرک نے اس نقصان کا ذمہ دار مرکزی حکومت کو قرار دیا۔ مرکزی حکومت کا کہنا تھا کہ کے الیکٹرک کو معاہدے کے مطابق بجلی دے رہے ہیں۔
کے الیکٹرک نے خود کوئی مزید بجلی کی پیداوای نہیں بڑھائی اس لیے موجودہ لوڈشیڈنگ کی ذمہ دار خود کے الیکٹرک ہے۔اب تو غیر اعلانیہ لوڈ شیڈنگ کے خلاف سندھ اسمبلی کے اسپیکر بھی بول پڑے اور شدید غصے کا اظہار کیا۔ سندھ کے وزیر بلدیات نے زور دے کر کہا ہے کہ اگر انتظامیہ کو ک الیکٹرک کے عہدہ داروں کو گرفتار کرنا پڑا تو کریں گے۔ اس میں شک نہیں کہ کے الیکٹرک اگر لوڈشیڈنگ نہ کرتی اور شدید گرمی میں لوگوں کے الیکٹرک پنکھے چل رہے ہوتے اور پانی مناسب مقدار میں مل رہا ہوتا تو یقیناً ہلاکتیں کم ہو سکتیں تھیں۔
بہر حال کراچی کی عوام کی اکثریت کے الیکٹرک سے تنگ آ چکی ہے اور کراچی کی عوام کہہ رہی ہے کہ کے الیکٹرک کو واپس گورنمنٹ کے اختیار میں دیا جائے۔ اس کے حا لات درست کیے جائیں اور آئندہ کراچی کا کوئی بھی گورنمنٹ کا ادارہ نجی اداروں کو فروخت نہ کیا جائے۔