کراچی (جیوڈیسک) کراچی کے علاقے ڈیفنس میں فلیٹ سے پیپلزپارٹی کے سینئر وزیر میر ہزار خان اور انکی اہلیہ کی لاش برآمد، میاں بیوی ڈیفنس رہائشگاہ میں مردہ حالت میں پائے گئے۔ ذرائع کے مطابق، امکان ہے کہ میر ہزار خان بجارانی نے اہلیہ کو قتل کر کے خود کشی کی تاہم صوبائی وزیر منظور وسان نے ان کی رہائشگاہ کے باہر میڈیا سے مختصر بات کرتے ہوئے ایسے کسی امکان کو مسترد کر دیا۔ ان کا کہنا تھا کہ میر ہزار خان ایسے آدمی نہیں تھے کہ خودکشی کر لیں، وہ نہایت خوش مزاج، زندہ دل اور متحمل مزاج شخص تھے۔
میر ہزار خان اور ان کی اہلیہ روزانہ صبح اٹھ کر چائے پیا کرتے تھے لیکن آج ان کے کمرے کا دروازہ نہ کھلا تو ملازمین کو تشویش ہوئی اور انہوں نے ان کے دروازے پر دستک دی لیکن جب دیر تک دروازہ بجانے کے باوجود اندر سے کوئی ردعمل نہ آیا تو اہلخانہ نے تالا توڑ دیا اور اندر انہیں مردہ پایا۔ سی ٹی ڈی حکام کے مطابق، میر ہزار خان کے سر میں ایک جبکہ ان کی اہلیہ کے سر میں تین گولیاں لگی ہیں اور ان کمرے سے گولیوں کے چار خول بھی ملے ہیں۔
پاکستان تحریک انصاف کے رہنما ڈاکٹر عارف علوی نے پیپلزپارٹی کے وزیر اور ان کی اہلیہ کے قتل پر دکھ کا اظہار کیا اور کہا اللہ دونوں کی مغفرت فرمائے۔ ڈاکٹر عارف علوی نے مزید کہا کہ گزشتہ پیر میرے گھر پر کھانے میں میر ہزار خان بجارانی اور ان کی اہلیہ سے ملاقات ہوئی تھی۔
وفاقی وزیر داخلہ احسن اقبال نے بھی پیپلزپارٹی کے سینئر وزیر کے قتل پر اظہار تعزیت کیا اور کہا اللہ دونوں کو جنت میں جگہ عطا فرمائے۔
خیال رہے میر ہزار خان بجارانی پی ایس 16 جیکب آباد سے رکن اسمبلی منتخب ہوئے، ان کا تعلق ضلع کشمور کے علاقے کرم پور سے تھا۔ میر ہزار خان بجارانی وزیر پلاننگ اینڈ ڈولپمنٹ سندھ کے عہدے پر تھے۔ 4 مرتبہ ایم این اے، 3 بار رکن سندھ اسمبلی اور 1988 میں سینیٹر رہے۔ میر ہزار وفاقی وزیر دفاع، تعلیم اور ریلوے کے منصب پر بھی فائز رہے۔ اہلیہ فریحہ رزاق بھی رکن سندھ اسمبلی رہ چکی ہیں۔
سندھ کے صوبائی وزیر ناصر حسین شاہ نے کہا ہے کہ میر ہزار خان بجارانی سے خود کشی کی توقع نہیں کی جا سکتی، کوئی دشمنی والی بات بھی نظر نہیں آ رہی، وہ ایسے انسان نہیں تھے کہ خود کشی کرتے، تحقیقات کے بعد حقائق سامنے آئیں گے، جو بھی ملوث ہوں گے انہیں کیفر کردار تک پہنچایا جائے گا۔ صوبائی وزیر نے کہا کہ اگر میر ہزار خان بجارانی پریشان ہوتے تق کل کیبنٹ میٹنگ میں شرکت نہ کرتے۔
وزیر اعلیٰ سندھ اور وزراء مقتول رہنماء کے گھر پہنچے اور جائے حادثہ کا معائنہ کیا۔ تاہم انہوں نے میڈیا سے بات کرنے سے گریز کیا۔ میر ہزار خان اور ان کی اہلیہ کی لاشیں بھی تاحال ان کی رہائشگاہ پر ہی موجود ہیں۔ سندھ حکومت اور پولیس نے لاشوں کو جناح ہسپتال منتقل کرکے پوسٹمارٹم کرانے کی کوشش کی تاہم، مرحومین کے اہلخانہ پوسٹمارٹم نہیں کرانا چاہتے اور ان کی خواہش ہے کہ لاشوں کو آبائی علاقے میں منتقل کر دیا جائے جہاں ان کی آخری رسومات ادا کرکے انہیں سپرد خاک کر دیا جائے گا۔
پیپلز پارٹی اور بلاول بھٹو نے آج تمام سیاسی سرگرمیاں معطل کر دی ہیں۔ آصف زرداری اور بلاول نے سینئر پی پی رہنماء اور ان کی اہلیہ کی وفات پر اظہار افسوس کیا اور سندھ حکومت کو تحقیقات کا حکم دیا۔
واقعے کے بعد کندھ کوٹ کے علاقے میں جلاؤ گھیراؤ کیا گیا اور کاروبار بند کر دیا گیا۔ اہل علاقہ اس اچانک پیش آنے والے حادثے پر نہایت پریشان اور دل گرفتہ ہیں اور میر ہزار خان کو جاننے والوں میں سے کوئی بھی اس بات کو تسلیم کرنے پر تیار نہیں کہ انہوں نے خودکشی کر لی ہے۔
پولیس نے میر ہزار خان اور ان کی اہلیہ کی لاشیں پوسٹمارٹم کیلئے ہسپتال منتقل کر دی ہیں جہاں ان کا پوسٹمارٹم کیا جائے گا تاکہ ان کی موت کے سبب کا تعین کیا جا سکے۔ لاشوں کی ہسپتال منتقلی کے وقت ان کے گھر پر نہایت جذباتی مناظر دیکھنے کو ملے جہاں مرحومین کے عزیز و اقارب، اہلخانہ اور پارٹی کارکنان روتے ہوئے نظر آئے۔ پولیس ابھی تک مرحوم وزیر کے گھر پر موجود ہے۔