جمہوریت کی آبیاری کرنے والی پاکستانی سیاست بھی عجیب شے ہے جس کی کوئی بھی ”کِل ” سیدھی نہیں ہے۔ فوجی دوراقتدار میں جمہوریت کے طلبگار عوام میں فوج کیخلاف غیض و غضب بھڑکاتے، فوج کیخلاف مورچہ لگاتے اور فوج کو ملکی سلامتی کیلئے خطرہ ٹہراتے دکھائی دیتے ہیں اور جب فوج عوامی احتجاج سے مجبور ہوکرعوامی امنگوں وخواہشات کا احترام کرتے ہوئے اقتدار منتخب حکومت کے حوالے کرنے کا فیصلہ کرتی ہے تو فوج مخالف سیاستدان فوج کی نگرانی میں انتخابات کا مطالبہ کرتے دکھائی دیتے ہیں جبکہ حصول اقتدار کے بعد یہی سیاستدان اور حکمران اپنی نااہلی و ناقص پالیسیوں سے ہونے والے قومی نقصانات و مضمرات پر پردہ ڈالنے کیلئے سابقہ فوجی دور ِ اقتدار کو تمام قومی بحرانوں کا ذمہ دار ٹہرا کر ایکبار پھر فوج پر تہمت و الزام لگاتے ہیں لیکن جب ناقص سیاسی پالیسیوں کے اثرات سے قوم سیلاب، حادثات یا عذابات کا شکار ہوتی ہے توپھر فوج کو ہی مددکیلئے پکارتے ہیں۔
مشکل ترین حالات میں جمہوری حکمران قوم کے نام پر سارے عالم سے بھیک مانگتے جبکہ فوج قوم کے کام آتی اور امداد و بحالی کا فریضہ اداکرتی دکھائی دیتی ہے۔ یہی نہیں بلکہ جب منتقلی اقتدار کیلئے انتخابات کرائے جاتے ہیںتو فوج کی نگرانی میں انتخابات کا مطالبہ اور پولنگ اسٹیشن کے اندر و باہر فوجی اہلکاروں کی تعیناتی کیلئے تمام سیاسی و جمہوری جماعتوں کا اصرار اس بات کو ثابت کرتا ہے کہ فوج ہی وہ واحد ادارہ ہے جس کی دیانتداری، فرض شناسی، تنظیم سازی، حالات سے نمٹنے کی صلاحیت اور بے مہار قوتوں کو مہار ڈال کر آئین وقانون کے دائرے میں لانے اور امن و امان قائم کرکے عوام کو احسا س تحفظ فراہم کرنے کی صلاحیت ہر قسم کے شکوک و شبہات سے بالاتر ہے۔
اسی لئے آج جب پاکستان کا تقریباً ہر علاقہ بدامنی، لاقانونیت، دہشتگردی، کرپشن، جرائم اور طاقتور طبقات کے کمزوروں کے استحصال کا شکار ہے اور سابقہ حکومت عوام کو جانی، مالی، ثقافتی، سماجی اور معاشی تحفظ کی فراہمی میں ناکامی کے بعد رخصت ہو چکی ہے جبکہ بڑی” چاہ و مان” سے موجودہ حکومت کو منتخب کرنے والے عوام مسائل میں کمی کی بجائے اضافے سے دو چار ہو کر موجودہ حکومت سے بھی مایوسی کا شکار ہوتے جارہے ہیں تو پوری قوم کی نگاہیں ایک بار پھر فوج کی جانب اٹھنے لگی ہیں مگر سرحدی صورتحال اور پاکستان کو لاحق بیرونی خطرات کے ساتھ اندرونی انتشار کے باعث فوج فی الوقت عوامی امنگوں کی ترجمانی کرتے ہوئے ایکبار پھر اقتدار سنبھالنے کی بجائے سیاستدانوں، حکمرانوں اور جمہوریت پسندوں کو اصلاح احوال اور صالح طرز حکمرانی کے ذریعے جمہوریت کے ماتھے پر لگے داغ دھونے کا موقع فراہم کررہی ہے لیکن مفادات و ہوس کے کرگس نے سیاست کے پنجر سے اجتماعیت ‘اشتراکیت’ اخلاقیت، متانت، وحدت اور ملک و قوم سے محبت کے ماس کو نوچ نوچ کر ہڑپ لیا ہے۔
Inflation
اب صرف ہوس، حسد، جھوٹ، بہتان، کرپشن اور ذاتی مفادات کیلئے قومی مفادات کو ضرب پہنچانے والے اجزأ پر مشتمل سیاست کا پنجر باقی رہ گیا ہے یہی وجہ ہے کہ عوام مسائل، مصائب، پریشانی، مہنگائی، بیروزگاری اور دہشت گردی کے ساتھ ساتھ لاقانونیت اور عدم تحفظ کا بوجھ بھی اٹھانے پر مجبور ہے اورفوج پر آئین شکنی کا الزام لگانے والوں نے ملک کے ایک کونے سے دوسرے کونے تک آئین و قوانین کا احترام اور پاسداری کا وجود مٹا ڈالا ہے۔ ہر طاقتور”چیل ”بنا بیٹھا ہے اور عوام کو” کبوتر” سمجھا جارہا ہے۔ مافیا زوجود میں آچکی ہے۔ ریاست کے اندر چھوٹی چھوٹی ریاستیں قائم کی جارہی ہیں اور قانون بے بس و غنڈے آزاد جبکہ عوام یرغمال ہیں۔ کراچی میں حالات پورے ملک کے مقابلے میں سَوا ہوچکے ہیں ہر روز درجن، دو درجن یا تین درجن سے زائد لاشیں گررہی ہیں، ٹارگیٹ کلنگ، اغوأ و تشدد کے بعد قتل، اغوأ برائے تاوان، بھتہ خوری اور کریکر حملے اتنے عام ہوچکے ہیں اب کراچی بیروت و لبنان کا منظر پیش کر رہا ہے۔
مافیا ز اس قدر طاقتور ہوچکی ہیں کہ میڈیا جرائم پیشہ عناصر کو ہیرو بنارہا ہے اور معصوم بچے ان جیسے عناصر کی وضع قطع، چال ڈھال اور حلیہ اپناکر ان کے جیسا بننے کی خواہش کا برملا اظہار اورپستول تھامے ان جیسی حرکات کے ذریعے ہمارے ”تابناک ” مستقبل کی تصویر پیش کرتے دکھائی دیتے ہیں۔ حکومت پر ناکامی، اداروں پر جرائم پیشہ عناصر کی مدد، سیاستدانوں پر مجرم پالنے، مسلح ونگ بنانے اور رینجرز و پولیس پر ناکامی کے الزامات لگائے جارہے ہیں جو کسی بھی طور نہ تو پاکستان کے حق میں ہے، نہ جمہوریت کے، نہ حکومت کے اور نہ ہی رینجرز و پولیس سمیت سیکورٹی و انتظام کے اداروں کے حق میں ہے۔ ان حالات میں سب عوام چہار جانب سے مایوس ہو چکے ہیں تو فوج کی جانب دیکھنا اور تحفظ کی فراہمی کیلئے کراچی میں فوج بلانے کا مطالبہ فطری ہی نہیں ضروری بھی ہے کیونکہ مسلح افواج نے ہمیشہ قوم کی امنگوں پر پورا اترتے ہوئے قوم و ملک کو مسائل و مصائب سے نکالا ہے۔
لیکن سیاسی رسہ کشی کے باعث کل تک کراچی کو فوج کے حوالے کرنے کا مطالبہ کرنے والے آج عوامی مفاد کو فراموش کرکے سیاسی گیم میکنگ و مفادات کیلئے فوج کی کراچی آمد کی مخالفت کر رہے ہیں جبکہ کل تک فوج کو کراچی کے حوالے کرنے کی مخالفت کرنے والوں کا فوج بلانے کا مطالبہ و سیاسی یوٹرن عوام کیلئے حیرت کا باعث ضرور ہے مگر وقت کی ضرورت اور عوامی تحفظ و ملکی استحکام کیلئے ناگزیر بھی ہے! جمہوریت کا مطلب عوام کے ووٹ سے عوام کی ایسی حکومت ہے جو عوام کے تحفظ و خوشحالی کیلئے اپنا کردار دیانتداری، فرض شناسی اور ذمہ داری سے ادا کرے مگر جب دیانتداری کا فقدان ہو فرض شناسی سے منہ موڑ لیا جائے، ذمہ داری کی ادائیگی میں تساہل مانع آجائے، عوام کے ووٹوں سے منتخب ہونے والی حکومت عوام کی خوشحالی کی بجائے سیاسی مفادات کے تابع ہوجائے اور عوام کے جان و مال کے تحفظ سے گریز اس مقام پر پہنچ جائے کہ جرائم عام ہو جائیں۔
General Zia-Ul-Haq
تحفظ کے ضامن ادارے اپنی فعالیت کھوکر عوامی اعتماد سے محروم ہو جائیں تو جمہوریت کی افادیت ختم ہو جاتی ہے کیونکہ جب لاشے گرتے ہیں، جنازے اٹھنے لگتے ہیں، سڑکوں پر انسانی لہو بہتا ہے، سروں سے چادریں چھننے لگتی ہیں اور انسان اپنے ہی شہر اور اپنے ہی گھر کی چار دیواری میں بھی خود کو غیر محفوظ تصور کرنے لگتا ہے تو پھر اسے جمہوریت و آمریت سے زیادہ اپنی اور پنے اہل خانہ کی جان کی فکر ستاتی ہے اور ان حالات میں اگر قوم فوج کی جانب دیکھتی ہے تو یہ فطری اَمر ہے کیونکہ سیاستدانوں کی جانب سے فوج کے جمہوری معاملات میں مداخلت کے الزامات اور جمہوری حکومتوں کی بد اعمالیوں کے نتیجے میں ملک بچانے کی فوج کی کوشش کو آمریت قرار دیئے جانے کے باوجود فوج نے ہمیشہ اپنے کردار کے ذریعے اس بات کو ثابت کیا ہے کہ وہ صرف بیرونی خطرات کی صورت سرحدوں کی حفاظت کی ضامن ہی نہیں بلکہ اندرونی خطرات و انتشار سے بھی ملک کو محفوظ رکھنے کی اہلیت و صلاحیت کی حامل بھی ہے اور حادثات و آفات کے لمحات میں قوم کی امدادوبحالی کا فریضہ انجام دینے کے ساتھ مشکل حالات میں ملک کی باگ ڈور سنبھال کر وطن عزیز اور عوام کو سیاستدانوں کی مفاد پرستی و منافقت کی بھینٹ چڑھنے سے بچایا ہے۔
اس بات سے بھی انکار ممکن نہیں ہے کہ فیلڈ مارشل جنرل ایوب خان، جنرل ضیاء الحق اور جنرل پرویز مشرف کے ادوار اقتدار میں پاکستان نے ریکارڈ ترقی کی اور عوام کو تحفظ کے ساتھ خوشحالی بھی حاصل ہوئی اس لئے جب بھی ملک میں حالات سیاسی حکمرانوں کے قابو سے باہر ہوجاتے ہیں یا عوام کا جان و مال حکمرانوں کی بداعمالیوں کی بھینٹ چڑھنے لگتا ہے تو قوم فوج کی جانب دیکھنے لگتے ہی اور یہ جمہوریت سے قوم کی نفرت یا جمہوریت کیخلاف سازش نہیں بلکہ فوج پر اعتماد کا اظہار اور جان و مال کے تحفظ کی فطری خواہش ہوتی ہے۔ قوم کی اس خواہش کو جمہوریت کیخلاف سازش یا غداری قرار دینے سے بہتر ہے ایسے حالات کا سدِ باب کیا جائے جن کی وجہ سے قوم فوج کی جانب دیکھنے اور اس سے مداخلت کی اپیل پر مجبور ہو جائے اور اگر ایسا ممکن نہیں ہے تو پھر فوج بلانے کیلئے اس بات کا انتظار کہ ابھی صرف بیس لاشیں گررہی ہیں جب دوسو لاشیں روز گریں گی تو فوج بلائیں گے۔ یقینا ملک و قوم اور جمہوریت کے حق میں نہیں۔ تحریر: عمران چنگیزی imrankhanchangezi@gmail.com