کراچی (جیوڈیسک) سندھ اسمبلی کی نشست ایک سو چودہ کے ضمنی انتخاب کا میدان سج گیا، تیر نشانے پر لگے گا، یا پتنگ اڑان بھرے گی، بلا ووٹ اگلے گا، شیر دھاڑے گا یا پھر ترازو کا پلڑا بھاری رہے گا، فیصلہ آج ہو گا۔
کراچی کے حلقہ پی ایس 114 کا ضمنی انتخاب، یہ حلقہ سیاسی جماعتوں کیلئے ٹیسٹ کیس بن گیا، جو جیتا وہی سکندر کے مصداق یہ نشست کراچی کی سیاست کے مستقبل کی ایک جھلک بھی ہو گی۔
دو ہزار تیرہ میں عرفان اللہ مروت تینتیس ہزار ووٹ لے کر کامیاب ہوئے ، متحدہ کے رؤف صدیقی نے تیس ہزار ووٹ لئے۔ دو ہزار آٹھ میں یہ نشست متحدہ ، دو ہزار دو میں عرفان اللہ مروت نے جیتی، حلقے میں متحدہ کا مضبوط ووٹ بینک ہے اور مدمقابل اب عرفان اللہ مروت بھی نہیں لیکن بائیس اگست کے بعد متحدہ کا ووٹ بینک تقسیم ہو چکا، اس کا نقصان کامران ٹیسوری اور فائدہ ہر انتخاب میں تیسرے اور چوتھے نمبر پر رہنے والی پیپلز پارٹی کو پہنچ سکتا ہے۔
بظاہر دوڑ میں سعید غنی آگے بھی نظر آرہے ہیں لیکن متحدہ کی زبردست انتخابی مہم کے باعث مقابلہ کانٹے کا ہے تحریک انصاف کے نجیب ہارون بھی مضبوط امیدوار کے طور پر سامنے ہیں۔ ن لیگ کے سابق رکن اسمبلی سردار عبدالرحیم اور عرفان اللہ مروت سعید غنی کی ناکامی اور نجیب ہارون کی کامیابی کیلئے کوشاں ہیں۔ اس حلقے میں گجر برادری کا ووٹ بینک ہے۔
ن لیگ کے امیدوار علی اکبر گجر ہیں۔ یہ حلقہ ماضی میں مسلم لیگ (ن) کا مضبوط گڑھ رہا مگر ن لیگ بھرپور انتخابی مہم چلانے میں ناکام رہی، جماعت اسلامی کے امیدوار ظہور جدون کی انتخابی مہم پر پر زور رہی لیکن ان کی پوزیشن بہت ذیادہ مضبوط نہیں۔