تحریر : سید توقیر زیدی وزیر اعظم محمد نواز شریف نے کہا ہے کہ پاکستان کے خلاف بولنے والے کو معاف نہیں کر سکتے، اشتعال انگیز بیانات سے جذبات بری طرح مجروح ہوئے، پاکستان ہمارا گھر ہے اور گھر کی حفاظت کرنا جانتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان کے خلاف کہے گئے ایک ایک لفظ کا حساب لیا جائے گا۔ وزیر اعظم ہاؤس سے جاری بیان کے مطابق وزیر اعظم نے قائد متحدہ الطاف حسین کی اشتعال انگیز تقریر اور کراچی میں میڈیا ہاؤسز پر حملوں کی شدید الفاظ میں مذمت کرتے ہوئے کہا کہ یہ میڈیا ہاؤسز پر نہیں بلکہ صحافت اور اظہار رائے کی ا?زادی پر حملہ ہے، وطن کی سلامتی اور وقار پر کسی قسم کی آنچ نہیں آنے دیں گے۔ کراچی کی صورتحال کے تناظر میں وزیر اعظم کا یہ بیان نہایت حوصلہ افزا ہے’ ورنہ ان کے بارے میں یہ تاثر راسخ ہوتا جا رہا تھا کہ ملک کے اندر اور باہر سے لوگ پاکستان کے خلاف چاہے جو بھی بولتے رہیں’ وہ کوئی ردِعمل ظاہر نہیں کرتے۔
اس حوالے سے بھارتی ایجنٹ کلبھوشن یادیو کی گرفتاری’ بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی اور دوسرے بھارتی وزرا کے پاکستان مخالف بیانات کی مثال دی جاتی ہے’ لیکن وزیر اعظم نے واضح کر دیا ہے کہ جو بھی پاکستان کے خلاف ہرزہ سرائی کرے گا’ اس سے بولے گئے ایک ایک لفظ کا حساب لیا جائے گا۔ حقیقت یہ ہے کہ پاکستان کو علاقائی اور عالمی سازشوں سے بچانے کے لیے ایسے ہی جذبے اور عزم کی ضرورت ہے۔ مصدقہ ذرائع کے مطابق حکومت اور اعلیٰ عسکری اداروں نے یہ فیصلہ کر لیا ہے کہ قائد متحدہ کے ساتھ ساتھ پاکستان مخالف تقاریر کرنے، بھارتی خفیہ ایجنسی را اور افغان خفیہ ایجنسی این ڈی ایس سمیت ملک دشمن ایجنسیوں سے رابطے رکھنے اور را سمیت ملک دشمن ایجنسیوں کے حق میں تقاریر کرنے والے سیاسی و مذہبی رہنماؤں اور مختلف این جی اوز کے اہم رہنماؤں کے خلاف فوری کارروائی ہو گی۔
وفاقی وزیر اطلاعات پرویز رشید کا کہنا ہے کہ حکومت ایم کیو ایم کے قائد کی پاکستان مخالف تقریر پر برطانیہ سے رابطہ کرے گی اور یہ معاملہ پوری طرح برطانوی حکومت کے سامنے اٹھایا جائے گا۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ اب اس معاملے کو انجام تک پہنچائیں گے۔ یہ بڑی زیادتی ہے کہ کسی بھی معاملے کو دبانے کے لیے طاقت کا استعمال کیا جائے اور اس مقصد کے لیے قانون کو ہاتھ میں لیا جائے۔ ایسا وہ لوگ کرتے ہیں’ جن کے پاس دلائل کے ذریعے معاملات کو سلجھانے کی اہلیت نہ ہو۔ قومی میڈیا اگر ایم کیو ایم کے قائد کی تقریر نشر نہیں کرتا تو ایسا کرنے کا حکم عدالت نے دیا ہے۔ ویسے بھی یہ کسی طور ممکن نہیں کہ آپ ملک و قوم کے خلاف ہرزہ سرائی کرتے رہیں اور اس کا کوئی سدباب ہی نہ کرے۔
MQM Ban Protest
یہ بات افسوسناک ہے کہ پابندی عائد ہونے اور ایم کیو ایم کے ملک دشمن سرگرمیوں میں ملوث ہونے کا راز افشا ہو جانے کے بعد معاملات کو سدھارنے کا آخری موقع بھی ضائع کر دیا گیا اور پارٹی قائد نے نہ تو بات کرنے کا انداز بدلا اور نہ ہی اپنے ملک کو مطعون کرنے کا سلسلہ ترک کیا۔ اس ضرورت سے انکار نہیں کیا جا سکتا کہ کسی بھی سیاسی جماعت’ اس کے رہنمائوں’ کارکنوں اور عام افراد کو اظہار خیال کی مکمل ا?زادی ہونی چاہیے’ لیکن اس کے ساتھ اس حقیقت کو بھی نظر انداز نہیں کیا جا سکتا کہ اس ا?زادی کا ناجائز فائدہ نہیں اٹھایا جانا چاہیے۔ اظہار خیال اور ہرزہ سرائی میں واضح فرق ہوتا ہے’ بولنے سے پہلے جسے سمجھا جانا چاہیے۔ افسوس کہ ایم کیو ایم کے قائد نے اس ا?زادی کا ناجائز فائدہ اٹھایا اور کبھی فوج کو مطعون کیا تو کبھی حکمرانوں پر چڑھ دوڑے’ جو حب الوطنی کے تقاضوں کے خلاف ہے۔ اشتعال انگیز تقریر اور کارکنوں کو میڈیا ہائوسز کا گھیرائو کرنے کا حکم دینے کی ٹائمنگ کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔
انہوں نے یہ حکم ایک ایسے موقع اور وقت پر دیا جب مقبوضہ کشمیر میں بھارتی حکومت اور فوج کے خلاف کشمیری عوام کی تحریک زوروں پر ہے اور نریندر مودی اینڈ کمپنی کی سمجھ میں نہیں آرہا کہ اس صورتحال سے کیسے نکلا جائے۔ برہان وانی کی شہادت کے بعد شروع ہونے والی اس تحریک کو دوسرا مہینہ جاری ہے اور مقبوضہ وادی میں کرفیو نافذ ہونے کے باوجود کشمیریوں کے احتجاج کا زور کسی طور کم ہونے میں نہیں آ رہا۔ ایسے میں کراچی میں ہنگامہ آرائی کروانے کو پوری دنیا کے میڈیا کی توجہ مقبوضہ کشمیر کی صورتحال سے ہٹا کر کراچی پر مبذول کرانے کی کوشش قرار دیا جائے تو بے جا نہ ہو گا۔ ایک ایسا شخص جو پاکستان کے وجود کو ہی تسلیم نہیں کرتا’ اس سے کسی خیر کی کیا توقع۔ اپنے ملک سے وفاداری کے کچھ تقاضے ہوتے ہیں’ جن کو ملحوظ رکھنا ہر فرد کی ذمہ داری ہوتی ہے’ چاہے وہ کسی پارٹی کا سربراہ ہو یا عام آدمی۔
اگرچہ ایم کیو ایم کے رہنمائوں نے گزشتہ روز کراچی پریس کلب میں ایک پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا ہے کہ میڈیا ہائوسز پر حملے سے متحدہ مکمل لاتعلقی کا اظہار کرتی ہے’ کراچی میں جو کچھ ہوا وہ قابل افسوس اور قابل مذمت ہے’ ریاست کے خلاف نعرے لگے جو قطعی نہیں لگنے چاہئیں تھے اور یہ کہ متحدہ کے قائد بھی اپنی غلطی تسلیم کرتے ہیں’ لیکن اس بات کی گارنٹی کون دے گا کہ آئندہ اس طرح کی تشویشناک صورتحال پیدا نہیں ہو گی۔ وقت آ گیا ہے کہ اس معاملے بھی اب کوئی حتمی فیصلہ کر لیا جائے۔