کراچی کے ضمنی انتخابات، جمہوریت کہا جا رہی ہے؟

Election

Election

تحریر : عارف رمضان جتوئی
تحریک انصاف کی ریلی کا جوش بڑھتا جارہا تھا۔ کچھ فاصلے پر کھڑے دو آدمی ریلی پر تبصرہ کر رہے تھے۔ باتوں میں سادگی واضح تھے۔ مزدورحلیہ رکھنے والے ایک شخص نے کہا کہ ” جانے کب یہ خناس ختم ہوگا“۔ دوسرے نے سرد آہ بھری اور ریلی پر گہری نظر ڈالتے ہوئے زمین پر پڑے سیاسی پارٹی کے پوسٹر پر غصے لات ماری اور ساتھ میں کہا کہ ”روزی روٹی تک بند ہوکر رہ گئی ہے۔ یہ کیسے عوامی نمائندے ہیں جو روز گار کے ایام چھین کر عوام کی بہبود کی باتیں کر رہے ہیں“۔ چلو یہاں سے بھاگ نکلیں کہیں ایسا نہ کوئی نامعلوم سمت سے پتھر یا ڈنڈا آن پڑے ، دوسرے نے نظر چراتے ہوئے ہلکی آواز میں اس سے کہا۔ پھر وہ وہاں سے چلے گئے۔ ان کی باتیں سن کر میں کچھ دیر تک اس حلقے میں بیتے حالات پر غور کرنے لگا۔

کراچی کے حلقہ این اے 246 میں ضمنی انتخابات کو کچھ روز باقی ہیں۔ حلقے میں تین بڑی جماعتوں کی بے صبری اور انتخابی مہم نے جس قدر بے چینی پیدا کر رکھی ہے اس سے نہ صرف کراچی بلکہ پورا پاکستان متاثر ہورہا ہے۔ پاکستان تحریک انصاف اور متحدہ قومی موومنٹ کے مابین کشیدگی اور پھر جماعت اسلامی کی ریلی پر نامعلوم افراد کا حملہ اس حلقے کی عوام کے لئے تشویش کا باعث بن گئے ہیں۔ کبھی مد مقابل سیاسی جماعتیں مل بیٹھ کر معاملات کے حل کے لئے اعلیٰ سطح پر بیانات جاری کرتی ہیں اور اگلے روز نامعلوم پارٹی کے بپھرے ہوئے کارکنان دوسری پارٹی پر دھاوا بول دیتے ہیں۔ ماحول ایک مرتبہ پھر کھینچاﺅ کی صورت اختیار کر جاتا اور اگلے روز پھر اعلیٰ قیادت اپنے اپنے کارکنان کو پر امن رہنے اور ان کی صفائی کے لئے بیانات داغ رہے ہوتے ہیں۔

اگر ایک اجمالی جائزہ لیا جائے تو حلقہ این اے 246 وہ ہے جہاں سے نبیل گبول نے استعفیٰ دیا ہے۔ نبیل گبول نے پیپلز پارٹی چھوٹی اور ایم کیو ایم کے ٹکٹ پر عام انتخابات میں ارکان قومی اسمبلی منتخب ہوئے، بعض ازاں پارٹی سے اختلافات کے باعث اسمبلی کی رکنیت سے مستعفی ہوئے اور متحدہ قومی موومنٹ کو الوداع کہہ دیا۔ حلقہ این اے 246 سے منتخب ہونے والے سابق رکن قومی اسمبلی نے رکنیت سے استعفیٰ دیا تو اس حلقے پر ضمنی انتخابات کے لئے ایم کیو ایم، پی ٹی آئی، جماعت اسلامی ودیگر نے اپنے نمائندے کھڑے کئے اور انتخابی مہم شروع کردی ہے۔ حلقے میں اپنا بھاری ووٹ بنک رکھنے کا دعویٰ کرنے والی تین بڑی پارٹیوں نے جلسے اور ریلیوں کا شیڈول دینا شروع کردیا ہے تاہم انتخابی دفاتر کابھی افتتاح کیا گیا ہے۔

National Assembly

National Assembly

قومی اسمبلی کے حلقہ 246 سے متحدہ قومی موومنٹ کنور نوید، پاکستان تحریک انصاف سے عمران اسماعیل اور جماعت اسلامی سے راشد نسیم ضمنی انتخابات میں امید وار نامزد کیے گئے ہیں۔حلقے میں اپنی انتخابی مہم کا آغاز سے ہی پاکستان تحریک انصاف اورمتحدہ قومی موومنٹ کے کارکنان مد مقابل آگئے۔ مڈبھیڑ ہوئی ، گاڑیوں کے شیشے توڑے گئے بالآخر اعلیٰ قیادت نے معافی تلافی کر کے سیاسی درجہ حرارت کو ٹھنڈا کیا۔ اگلے ہی روز پاکستان تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان اپنی اہلیہ کے ہمراہ کراچی آئے اور پھر اعلیٰ قیادت نے خوش آمدید کہا، پھول کی رہی ہے،

تاہم اب جماعت اسلامی بھی اس ڈنڈے والی سیاسیت کا حصہ بن چکی ہے۔ جماعت اسلامی کی ریلی کو رات کی تاریکی میں جس طرح کے پتھراﺅ اور ڈنڈوں کا سامنا کرنا پڑا ہے اس سے یہ پارٹی بھی سیاسی عتاب کا شکار ہوگئی ہے۔ جماعت اسلامی نے عام انتخابات میں الیکشن میں مبینہ دھاندلی پر بائیکاٹ کیا تھا تاہم اب ضمنی انتخابات میں وہ خود کو ایک مرتبہ پھر میدان عمل میں اتار چکے ہیں۔

کراچی کے حلقہ این اے 246 میں ضمنی انتخابات کو پورے پاکستان میں جس نگاہ سے دیکھا جارہا ہے ایسے لگ رہا ہے جیسے یہ ایک ایسا سیاسی محاذ ہے جہاں تین معتبر پارٹیوں میں سے کسی ایک کی جیت پارٹی کے سر بلند کرنے میں نمائندہ جیت ثابت ہوگی۔ یہ ایسا حلقہ ہے جس کچھ روز قبل تک ایم کیو ایم کا گھڑمانا جارہا تھا

Nabeel Gabol

Nabeel Gabol

تاہم گزشتہ روز نبیل گبول جو کہ اب پیپلز پارٹی سے نکاح ثانی کرنے جارہے ہیں کے انکشافات نے متحدہ قومی موومنٹ کے گھڑ پر شکوک و شبہات کو جنم دیا ہے۔ یہ تو آنے والے وقتوں میں انداز ا ہوگا کہ ایک ایسے وقت میں ان انکشافات کی ضرورت کیوں پیش جب ضمنی انتخابات چند دنوں کے فاصلے پر ہیں تاہم متحدہ کی ساکھ کو کچھ حد تک دھجکا ضرور لگا ہے۔ تین پارٹیوں میں جکڑا حلقہ این اے 246 میںآنے والوں دنوں میں کچھ مزید اقدامات بھی رونما ہونے والے ہیں۔ پارٹیوں کی اعلیٰ قیادت اس حلقے کی جانب پوری توجہ دے رہی ہے اور قیادت کے ساتھ ساتھ کارکنان بھی اس سے بے خبر نہیں ہیں۔ جلسوں کے شیڈول بھی دے دیے گئے اور جناح گرﺅنڈ اس لحاظ سے گہری دلچسپی کا محور سمجھا جارہا ہے۔ اس انتخابی مہم میںحالات کا دھارا کیا ہوگا یہ گزشتہ کچھ دنوں سے واضح دیکھائی دے رہے ہیں۔

ان حالات میں حکومت اور خاص طور پر الیکشن ٹربیونل کی ذمہ داری کیا ہوگی یہ ایک اہم پہلو ہے۔ کیاحکومت اس ایک حلقے کے دنگل میں پرامن انتخابات میں اپنا کلیدی کردار ادا کر پائے گی یا شہریوں کو ان کے حال پر چھوڑ کر خود نوٹس لینے کی تیاری کرے گی۔ الیکشن ٹربیونل کو بھی شاید عام انتخابات کی بانسبت اس حلقہ پر خصوصی طور ضابطہ اخلاق پر عمل کروانے میں پارٹیوں کی اعلیٰ قیادت پر زور دینا ہوگا۔

حلقے کے انتخابات کا عمل اپنی جگہ اہمیت کا حامل ہے تاہم بطور شہری اور پاکستانی ہمیں افرادی اور اجتماعی طور پر اپنی اخلاقیات کا دامن تھامے رکھنے کی ضرورت ہے۔ الیکشن ہوتے ہیں الزامات لگتے ہیں حکومتیں بنتی ہیں اور پھر ختم ہوجاتی ہیں مگر ہم وہیں لیاقت آباد، عزیزآباد اور کراچی کے شہری ہی ہوں گے تو کیوں خود کو ایک دوسرے کے دشمن سمجھ رہے ہیں۔ ہمیں پارٹیوں کو انتخابات کی حد تک رکھتے ہوئے عوامی سطح پر شہریوں والا حلیہ رکھنا ہوگا تب شاید ہم ایک اچھے شہری کی ذمہ داری ادا کر پائیں گے۔

Arif Jatoi Ramadan

Arif Jatoi Ramadan

تحریر : عارف رمضان جتوئی