کراچی (اصل میڈیا ڈیسک) پاکستان میں وفاقی حکومت کراچی کا انتظام اپنے ہاتھ میں لینے پر غور کر رہی ہے۔ لیکن ناقدین ایسے کسی اقدام کو وفاقی کی طرف سے کراچی کے وسائل پر قبضے کی سازش قرار دے رہے ہیں۔
حکومتی سوچ کا اشارہ گذشتہ روز وفاقی وزیرِ قانون بیرسٹر فروغ نسیم کی طرف سے ایک ٹی وی پروگرام میں سامنے آیا۔ کراچی کے مسائل پرگفتگو کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ وفاق اب آئین کی شق 149 کے تحت شہر کے انتظامی اختیارات اپنے ہاتھ میں لے سکتا ہے۔ بعد میں جمعرات کو انہوں نے ایک وضاحتی بیان میں کہا کہ ابھی یہ محض ایک تجوز ہے اور اس پر کوئی حتمی فیصلہ نہیں ہوا۔
وفاقی حکومت کا اصرار ہے کہ تجویز کا یہ مطلب نہیں کہ سندھ میں گورنر راج یا ایمرجنسی کا نفاذ ہونے جا رہا ہے۔ پی ٹی آئی کے وزیروں کے مطابق کراچی کو سندھ میں پیپلز پارٹی کی حکومت کے رحم و کرم پر نہیں چھوڑا جا سکتا اور اس کے لیے آئین میں شق 149 کے تحت وفاق کے پاس گنجائش موجود ہے کہ وہ معاملات اپنے ہاتھ میں لے لے۔
وفاقی وزیرِ قانون کے بیان کے بعد سوشل میڈیا پراس اقدام کے حق میں حکومت اور فوج کے حامی حلقوں نے بھرپور مہم شروع کر دی۔
لیکن ناقدین ایسے کسی اقدام کو وفاقی حکومت کی کراچی کے وسائل پر قبضے کی سازش قرار دے رہے ہیں۔ ان کے نزدیک ماضی میں وفاق نے جب صوبائی معاملات میں مداخلت کی تو اس کے منفی نتائج نکلے اور اس بار بھی مسائل کم ہونے کی بجائے بڑھنے کے امکانات ہیں۔
پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو نے پی ٹی آئی حکومت کے ایسے کسی اقدام کو غیرآئینی اور سندھ کو تقسیم کرنے کی سازش قرار دیا ہے۔ انہوں نے کراچی سے متعلق عمران خان کے ایسے ممکنہ اقدام کو مودی حکومت کی کشمیر سے متعلق پالیسی سے تشبیہ دی ہے۔
لیکن کراچی اپنے تمام تر مسائل کے باوجود سونے کی چڑیا ہے اور بعض مبصرین کا خیال ہے کہ پاکستان کی اقتصادی رگ کی حیثیت رکھنے والے اس شہر پر طاقتور حلقوں کی نظریں ہیں جو پی ٹی آئی کے ذریعے اس پر اپنی گرفت مضبوط کرنا چاہتے ہیں۔
اس پوری بحث سے قطع نظر کراچی کے مسائل روز بہ روز پیچیدہ ہوتے جا رہے ہیں۔