کراچی (جیوڈیسک) شہر قائد کو جرائم پیشہ افراد سے پاک کرنے کے لیے ستمبر 2013 میں شروع ہونے والے آپریشن کو8ماہ بیت گئے لیکن بھتہ خور آج بھی آزاد ہیں۔
بھتہ خوروں نے ڈاکٹر ، وکیل ، تاجر ، صنعت کار ، پروفیسر غرض زندگی کا کوئی شعبہ ایسا نہیں چھوڑا جسے بھتے کی پرچیاں نہ دی گئی ہوں ، بھتہ خوروں نے کئی افراد کو بھتہ نہ دینے پر موت کے گھاٹ بھی اتاردیا ، پولیس و رینجرز اپنے تمام تر دعوئوں کے باوجود بھتہ خوری پر قابو پانے میں ناکام ہیں۔
تفصیلات کے مطابق ملک کے معاشی حب اور میٹرو پولیٹن شہر کراچی کو جرائم پیشہ افراد سے پاک کرنے کی غرض سے 5 ستمبر 2013 کو آپریشن کا آغاز کیا گیا ، اس دوران کراچی پولیس کی کمانڈ بھی تبدیل کی گئی جبکہ نئے ڈی آئی جیز بھی تعینات کیے گئے ، آپریشن کے دوران پولیس اور رینجرز نے 10 ہزار سے زائد ملزمان کی گرفتاری کے دعوے کیے جوکہ انتہائی کھوکھلے ثابت ہوئے۔
دوسری جانب اسی دوران بھتہ خور بھی انتہائی سرگرم رہے جبکہ پولیس و رینجرز ان تک پہنچنے میں ناکام رہی ، آپریشن شروع ہوئے 8 ماہ بیت گئے اور اس دوران بھتہ خوری کے 780 کیسز انتظامیہ کا منہ چڑانے کے لیے کافی ہیں۔
آپریشن کے پہلے ماہ یعنی ستمبر 2013 میں 128 ، اکتوبر میں 92 ، نومبر میں 89 ، دسمبر میں 70 ، جنوری 2014 میں 98 ، فروری میں 87 ، مارچ میں 117 ، اپریل میں 97 جبکہ ماہ مئی میں اب تک 11 کیسز سٹیزن پولیس لائژن کمیٹی (سی پی ایل سی) میں رجسٹرڈ کیے جاچکے ہیں ، اس دوران بھتہ خوروں نے ڈاکٹر ، وکیل ، استاد ، تاجر ، صنعت کار ، دکاندار غرض زندگی کا کوئی شعبہ ایسا نہیں چھوڑا جسے لاکھوں روپے بھتے کی پرچیاں نہ دی گئی ہوں ، حیرت انگیز امر یہ ہے کہ ملزمان اس دوران نہ صرف کروڑوں روپے بھتہ وصول کرچکے ہیں جبکہ 780 کیسز کے علاوہ بڑی تعداد ایسی بھی ہے جس میں تاجر حضرات پولیس حکام کے علم میں لائے بغیر ہی جان کے خوف سے بھتہ خوروں کو لاکھوں روپے ادا کردیتے ہیں۔