ملکی خزانہ میں سب سے زیادہ ٹیکس جمع کرانے والے شہر قائد میں اب ٹیکس کلچر سے زیادہ بھتہ کلچر فروغ پا چکا ہے۔ یومیہ بنیاد پر تاجروں سے ایک کروڑ روپے روزانہ، 30 کروڑ روپے ماہانہ اور سالانہ 4 ارب روپے سے زائد فکس و جبری بھتہ وصول کیا جا رہا ہے۔ ملک کے معاشی حب شہر قائد کو بھتہ خوروں کی جنت کہا جائے تو قطعی غلط نہ ہوگا۔ شہر کی چھوٹی بڑی ہر مارکیٹ بھتہ خوری کی لپیٹ میں ہے۔ صرف اولڈ سٹی ایریا کی تقریبا سو مرکزی مارکیٹوں سے ماہانہ کئی کروڑ روپے فکس بھتہ وصول کیا جا رہا ہے۔
ان مارکیٹوں میں کھجور بازار، صرافہ بازار، برتن بازار، کاغذی بازار، چپل مارکیٹ، میٹھا در، کھارا در، جوڑیا بازار بالٹن مارکیٹ، کپڑا بازار، بوتل گلی، جونا مارکیٹ، جامع کلاتھ مارکیٹ اور سپئیر مارکیٹ سمیت دیگر مارکیٹں اور بازار شامل ہیں جہاں تاجروں سے فلاحی کاموں کے نام پر بھی بھتہ مانگا جاتا ہے۔ حکومتی بے حسی کے باعث جرائم پیشہ عناصر کے حوصلے بھی بلند ہو چکے ہیں۔ دیدہ دلیری سے آن لائن بینکینگ کے ذریعے بھی بھتہ وصول کیا جا رہا ہے۔
شہر میں انکم ٹیکس سے زیادہ بھتہ ادا کیا جا رہا ہے۔ احتجاج کرنے پر تاجروں کو قتل کی دھمکیاں بھی دی جا رہی ہیں۔ شہر کے پوش علاقوں کلفٹن، ڈیفنس، گزری، زمزمہ، طارق روڈ، بہادر آباد سمیت اردو بازار، الیکٹرونکس مارکیٹ، صدر، گلشن اقبال ، لیاقت آباد سمیت دیگر علاقوں کی مارکیٹوں اور صنعتی علاقوں کے تاجروں اور صنعتکاروں سے بھتہ وصولی کا سلسلہ جاری ہے۔