موجودہ انتخابات میں بانی ایم کیو ایم نے بائیکاٹ کا اعلان کردیا تھا اورمسلسل اس بات پر زور دیا کہ عوام بھی موجودہ انتخابات کا بائیکاٹ کردے جس کے نتیجے میں میں ایم کیو ایم کی سیٹوں پر ان کے بنیادی اور حلف یافتہ کارکنوں نے حصہ نہیں لیا اور یہ ہی نہیں بلکہ ان کارکنوں نے عوام کو پولنگ اسٹیشنوں پر لانے میں بھی اپنا کوئی روایتی کردار ادا نہ کیالہذا وہ ووٹرز جوگزشتہ تیس برسوں سے ایم کیو ایم کے کارکنوں کی جدوجہد کے نتیجے میں پولنگ اسٹیشنوں تک آتے تھے وہ اس بار نہ آسکے کیونکہ وہ ووٹرز ایم کیو ایم پاکستان کی دسترس یا دبائو میں بھی نہیں تھے لہذا پھر یہ ہوا کہ ایم کیو ایم وہ تمام سیٹیں جو ہمیشہ سے ہی جیتا کرتی تھی وہ ایم کیو ایم پاکستان ہار گئی ۔یہاں تک ایم کیو ایم بانی کے بعد نمبر ون کی پوزیشن پر رہنے والے فاروق ستار خود بھی اپنی نشست پر ہار گئے جس کی وجہ یہ بھی ہے کہ بانی ایم کیو ایم پی آئی بی ،بہادرآباد اور پی ایس پی والوں کو غدار قراردے چکے تھے اور پھر یہ ہی وجہ ہے کہ پی ایس پی جو کے یک دم سے ابھرتی ہوئی جماعت تھی وہ بھی منہ کے بل آگری خود مصطفی کمال بھی اس طرح سے ہارے کہ ضمانت ہی ضبط ہوگئی ،اب سوال یہ پیدا ہوتا کہ ہے ایم کیو ایم پاکستان چھ سیٹیں کیسے جیت گئی ؟تو اس کا جواب یہ ہے کہ ان چھ حلقوں میں 2 حلقے حیدر آباد کے اور باقی چارحلقے کراچی کے ہیں جہاں پر ایم کیو ایم پاکستان اور لندن دونوں کارکنوں کے لیے کوئی امیدوار ایسا نہیں تھاجو انہیں مطمئین کر سکتا لہذا ایم کیوایم پاکستان اور لندن کے کارکنوں نے بحالت مجبوری ایم کیو ایم کے ان امیدواروں کو ووٹ دیدیا جو انہیں تمام انتخابی مہم کے دوران اپنے عدم تعاون سے پریشان کرتے رہے۔
اس کے ساتھ چونکہ مسلم لیگ ن نے اپنے کسی بھی دور اقتدار میں کراچی ،حیدرآباد سمیت سندھ بھر کو نظرانداز کیئے رکھا تھا اس کا نتیجہ بھی یہ نکلا کہ خود کراچی کے ایک حلقے سے مسلم لیگ ن کے صدر میاں شہباز شریف بھی قومی اسمبلی کی نشست سے ہار گئے اور پھر یوں ہوا کہ ایسے تمام ووٹرز کا وزن تحریک انصاف کے پلڑے میں آگرا،ایک وقت تھا کہ ایم کے روایتی انداز سیاست کے باعث خود ہی لوگ پتنگ کے نشان پر ووٹ ڈال آتے تھے اور علاقے ذمہ داران کو آگاہ بھی کردیا جاتاتھا کہ انہوں نے خود ہی جاکر یہ کام کردیا ہے لہذا ان پر اب کوئی دبائو نہ ڈالا جائے ایک وقت یہ تھا کہ کراچی کے درجنوں چوکوں اور چوراہوں پر صرف بانی ایم کیو ایم کی تصاویر آویزاں تھی یا پھر پتنگ کا نشان اس کے علاوہ اگر کسی جماعت کا بینر یا پوسٹر لگ بھی جاتا تھا تو وہ فوراً ہی اتار دیا جاتاتھا اسے انتہا پسندی کہیں یاپھرایک جماعت کی اجارہ داری دونوں ہی صورتوں میں ایم کیو ایم اس شہر کی اکیلی وارث بنی رہی لوگوں کے زہنوں میں ایک خوف سوار تھا لوگ سمجھتے تھے کہ بانی ایم کیو ایم اس دور میں ایک ایسی مخلوق کا نام ہے جو نعوزبالللہ انہیں ہر جگہ پر دیکھ سکتی تھی 2013 کے انتخابات میں میرے اپنے ایک قریبی شخص نے مجھے بتایاکہ اس بار میرا ارادہ تھا کہ میں پتنگ کو ووٹ نہیں دونگا پھر کہا کہ جب میں ووٹ ڈالنے کے لیے پولنگ بوتھ کے پاس گیا تو وہاں کیمرہ لگا ہواتھا مجھے دھڑکا ہوا کہ کہیں اس کیمرے سے بانی ایم کیو ایم مجھے دیکھ تو نہیں رہے لہذا ڈر سے میں نے پتنگ پر ہی ٹھپہ لگا دیا تھا۔
خیر وقت بہت بدل چکاہے اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ گزشتہ تیس سالوں تک کراچی میں ایم کیو ایم کے انتخابی امیدواروں نے کسی بھی سیاسی جماعت کو گھسنے تک نہ دیا تھا جس نے زور آزمائی کربھی لی توا س کی سیاست کو انتخابی عمل کے زریعے اٹھاکر سمندر برد کردیاگیا،مگر اب اسی ایم کیو ایم کا سیاسی جمود ٹوٹ چکاہے نوجوانوں کی دوسری سے تیسری نسل نے ایک متبادل جماعت کی جانب رخ کرلیا تھا ،اس سے قبل کراچی لسانی فساد کا مرکز بنار ہاجس نے ملک کے تمام تر اداروں اور سیاسی و سماجی حالات کو بھی اپنی گرفت میں جکڑے رکھا،ایم کیو ایم پچھلے تیس سالوں تک پاکستان کی نمبر ون جماعتوں کو اپنے منتخب علاقوں سے ضمانتیں ظبط کرواکر ان کے کیپموں میں واپس بھیجتی رہی مگر اس بار تحریک انصاف نے حیرت انگیز طور پر ایم کیو ایم کا ایسے ہی صفایا کیا جیسے وہ گزشتہ کئی دہائیوں کے انتخابات میں دوسری جماعتوں کاکرتی رہی ہے ،2013 کے انتخابات میں کراچی میں قومی اسمبلی کی 20میں سے 17نشستیں ایم کیو ایم کے نام رہی تھی ،اور اس کے علاوہ بلدیاتی انتخابات میں بھی ایم کیو ایم نے مدمقابل جماعتوں کو سر پٹخ کر بھاگنے پر مجبور کردیاتھا،یعنی 1988سے لیکر 2013تک ایم کیو ایم کے سرپر کراچی میں بلا شرکت غیر حکمرانی کا تاج قائم رہامگر اب کراچی بدل چکاہے، اور یہ طے ہوچکاہے کہ ایم کیو ایم کا جمود اگر تھا تو وہ بانی ایم کیو ایم کی ہی وجہ سے تھا ،ایم کیو ایم کے کمزور ہونے کے بعد کراچی میں خوف کا ماحول ختم ہونے سے لوگ اب اس بات کا برملا اظہارکرنے لگے ہیں کہ میں نے فلاں فلاں پارٹی کو ووٹ دیا ہے۔
کراچی میں ایم کیو ایم کے خلاف آپریشن کے بعد تحریک انصاف کی سٹریٹ پاور میں بہت بڑا اضافہ دیکھنے کو ملا جس کا انداز اس بات سے لگایا جاسکتاہے کہ ایم کیو ایم جو گزشتہ تیس سالوں سے کراچی کی سیاست میں کسی کو ہلنے کا موقع بھی نہیں دیتی تھی آج وہاں پر ایم کیو ایم کو ان علاقوں سے پی ٹی آئی کے نامعلوم امیدواروں نے ایم کیو ایم کے بڑے بڑے برجوں کو گرادیا جن کی توقع کرنا بھی بے وقوفی سمجھا جاتارہاہے،اس کے علاوہ ایم کیو ایم سے الگ ہوکر اپنی نئی جماعت بنانے والی پارٹی پی ایس پی بھی اڑتی ہوئی ریت سے زیادہ کوئی کردار ادانہ کرسکی اس کے علاوہ کراچی میں لیاری کا علاقہ جو پیپلزپارٹی کا گڑھ سمجھا جاتا تھا وہاں خود بلاول بھٹو کی عبرت ناک شکست سب کے سامنے ہے مگر کراچی میں تقریباً ہر جگہ سے ایسا ہی لگتا ہے کہ منظر نامہ اب تبدیل ہوچکاہے ،دوسری جانب تحریک انصاف نے اس بار کراچی میں ایسے ایسے لوگوں کو بھی ٹکٹ دیے تھے جن کو کبھی سیاست میں نہیں دیکھا گیا یہاں تک وہ لوگ بھی یہاں سے کامیاب ہوئے جو خود کسی کو ایم پی اے بنانے کے لیے ان کے کوارڈینیٹر کے طور پر کام کررہے تھے اور سمجھتے تھے کہ اگر میرا فلاں لیڈر ایم این اے یا ایم پی اے بن جائے تو میں اپنے بہت سے کام نکلوا سکونگا مگر قدرت نے ان لوگوں کو بھی اسمبلیوں میں جاپہنچایایا ان میں سے ایک امیدوار ایسا بھی ہے جو عمران خان کی سیکورٹی کے معاملات دیکھتا تھا آج وہ ایم پی اے بن چکاہے اس کے علاوہ کئی ایسے ہیں جو میڈیا کے معاملات میں بھاگ دوڑ کرنے والے تھے اور ایک ایسا آدمی جو کمپیوٹر آپریٹر تھا جس کا کام لو گوں کے عہدوں کے نوٹیفیکشن نکالنا تھا آج وہ ایم پی اے کی سیٹ پرکامیاب ہوچکاہے اور ایسے لوگوں کے مقابلے میں ہار ان لوگوں کی ہوئی ہے جو کبھی کراچی میں دہشت کی علامت سمجھے جاتے تھے جن کے ایک اشاروں پر تھانے کے تھانے ہی الٹ جاتے تھے جن کی ایک کال پر کراچی میں آئے روز شٹرڈائون معمول تھا وہ آج کراچی میں تحریک انصاف کے نامعلوم امیدواروں سے بری طرح سے شکست کھاکر اس بات کو سوچنے پر مجبور ہیں کہ ” کیا ان کے ساتھ ایسا بھی ہو سکتا ہے “۔