تحریر: عمران چنگیزی بلدیاتی ہوں گے یا نہیں اور اگر ہوں گے تو پر امن ہوں گے یا کراچی کے عوام کو بد امنی کے جہنم میں جھلس کر بلدیاتی نمائندگی کے حصول کی قیمت ادا کرنی ہوگی متحدہ قومی موومنٹ کراچی کی نمائندگی کا اعزاز برقرار رکھ پائے گی یا جماعت اسلامی اور تحریک انصاف کا اتحاد کراچی کو فتح کرنے میں کامیاب ہوجائے گا اسلام آباد کے انتخابات میں کثیر تعداد میں آزاد امیدواروں کی فتح شخصیت پرستی کے سحر سے عوامی آزادی اور سیاسی جماعتوں کی کارکردگی سے بیزاری کا ثبوت ہے سابق میئر کراچی مصطفی کمال کے دور ترقی کی واپسی کیلئے عوام کو کسی بھی ایک جماعت پر بھرپو ر اعتماد کا اظہار کرکے جرا ¿تمندانہ فےصلوں کیلئے اسے واضح اکثریت دینی ہوگی۔
اختیارو اقتدار کی تقسیم کے خوف سے بلدیاتی انتخابات سے گریز جمہوری ادوار کی روایت رہی ہے جبکہ مسلم لیگ (ن) و پیپلزپارٹی کے دونوں ادواراقتدار اس روایت سے عبارت ہیں مگر مشرفی آمریت نے جمہوریت کی اساس یعنی بلدیاتی اداروں کو مضبوط بنانے کے ساتھ اختیارات کی نچلی سطح تک منتقلی کیلئے نہ صرف بلدیاتی انتخابات کرائے بلکہ ملک بھر میں قائم ہونے والی تمام ضلعی حکومتوں کو مکمل خود مختاری کے ساتھ بھرپور فنڈز بھی فراہم کئے تاکہ ضلعی حکومتیںعوام کی ضروریات کے مطابق ترقیاتی عمل انجام دیکر عصری تقاضوں اور مستقبل کی ضروریات کی پیش بندی کرسکیں ۔یہی وجہ تھی کہ جن اضلاع کی ضلعی حکومتوں نے بہتر حکمت عملی ‘ مو ¿ثر پلاننگ ‘ ٹیکنیکل ٹیم کی مشاورت اور جغرافیاتی و عصری تقاضوں کو مدِنظر رکھتے ہوئے دیانتداری کے ساتھ کام کیا۔
ان اضلاع نے ماضی کے مقابلے میں تیزرفتار ترقی کی جن میں کراچی سرِ فہرست رہا کیونکہ سٹی ناظم مصطفی کمال کوشہر کی تعمیرو ترقی کے جرا ¿تمندانہ فیصلوں کیلئے نہ صرف اپنی جماعت متحدہ قومی موومنٹ کے قائد الطاف حسین اور صدر پاکستان پرویز مشرف کی مکمل حمایت حاصل تھی بلکہ اس تعلیم یافتہ و دانشور نوجوان نے سیاسی و حکومتی روایت کے مطابق اپنے گرد کاسہ لیس و چاپلوس حاشیہ برداروں و مشیروں کی فوج اکھٹی کرنے کی بجائے تعلیم یافتہ ‘ ذہین اور عصری تقاضوں پر باریک بینی سے نظر رکھنے کے ساتھ کاروبار و تجارت کو سمجھنے والے مشیروں کو جمع کیا اور پھر ان سب کی صلاحیتوں نے مصطفی کمال کی سربراہی میں الطاف حسین کی آشیرباد اور پرویز مشرف کی سرپرستی کے ساتھ کراچی کو حقیقی معنوں میں دور جدید کے ترقی یافتہ میگاسٹی میں تبدیل کرکے دکھایا گو مصطفی کمال کا دور بھی بلدیاتی وشہری مسائل سے مکمل پاک نہیں تھا۔
Problems
مگر اس دور میں مسائل ماضی و حال کی طرح اس قدر گھمبیر بھی نہ تھے اور اگر جمہوریت کی روایت کے مطابق بلدیاتی اداروں کی کارکردگی سے خوفزدہ جمہوریت ضلعی حکومتوں کے نظام کووسعت دیکر مزید مستحکم بناتی اور غیر جانبدارانہ و شفاف طریقے سے بروقت بلدیاتی انتخابات کرادیئے جاتے تو آج کراچی اور اس کے عوام اس طرح بلدیاتی ‘ معاشی اور سماجی مسائل کے ساتھ دہشتگردی و بد امنی سے اس طرح دوچار نہ ہوتے جیسے وہ آج ان عفریتوں کا شکار ہیں۔
مسلم لیگ (ن) کے قائد میاں نوازشریف نے بھی تیسری بار اقتدا ر کی باری لینے کے بعد اپنے پیشرو چیئرمین پیپلزپارٹی و سابق صدر پاکستان آصف علی زرداری اور اپنے سابقہ اقتدار کی بلدیاتی انتخابات سے گریز کی پالیسی کو جاری رکھا مگر مشرف مخاصمت کے باعث آزاد ہونے والی عدلیہ کی جانب سے عوامی مفادات کے تحفظ کیلئے اٹھائے جانے والے قانونی گرز کے باعث بلدیاتی انتخابات پر مجبور ہوئی مگر بلدیاتی انتخابات سے گریز اور تاخیری حربوں کی درمیانی مدت کے دوران پاکستانی عوام پر بار بار حق حکمرانی کا ثبوت دینے والی دونوں سیاسی جماعتوں نے قانون سازی کے ذریعے ضلعی حکومتوں کے نظام کو کچھ اس طرح سے اپنا اسیر بنالیا کہ بلدیاتی ادارے صوبائی حکومتوں کے سامنے بے بس اور بلدیاتی نمائندے بے اختیار ہوگئے۔
جس سے کھربوں کی سرمایہ کاری سے اقتدار پانے والی قیادتیں ‘ حلقے اور طبقے اختیارات میں شراکت کے خوف سے محفوظ اور ضلعی حکومتوں کو اپنا اسیر و جوابدہ بناکر عوام کو بھی اپنی بین پر جھومنے پر مجبور بنانے میں کامیابی کے حصول کے بعد مرحلہ وار بلدیاتی انتخابات پر تیار ہوگئیں جس کے تحت کرائے جانے والے بلدیاتی انتخابات کے پہلے مرحلے میں انتخابی نتائج حکومتی جماعتوں کی مرضی و منشاءکے عین مطابق آئے اور قومی سطح پر تیسری عوامی قوت کے طور پر ابھر کر خیبر پختونخواہ کی حکمران جماعت بننے والی تحریک انصاف ہر جگہ نشستوں کے حصول کے باجود ونر کی جگہ رَنر اَپ دکھائی دی جبکہ پنجاب میں ہر جگہ حکومتی جماعت مسلم لیگ (ن) اور سندھ میں پیپلزپارٹی کو فتح کا فخر حاصل ہوا۔
PML N
جبکہ دوسرے مرحلے میں پنجاب میں مسلم لیگ (ن) کیلئے کوئی بڑی پریشانی کھڑی نہیں ہوئی مگر حیدرآباد میں متحدہ قومی موومنٹ اور بدین میں ذالفقار مرزا پینل کی اکثریتی فتح نے سندھ کی حکمران جماعت کیلئے ہی نہیں بلکہ صوبائی دارالحکومت پردرپردہ حکمران ان تمام استحصالی طبقات اور جرائم کی سرپرستی کرنے والوں کیلئے بھی خطرے کا بگل بجادیا جو منشیات کی و اسلحہ کی سپلائی کے ساتھ پانی کی فروخت ‘ زمینوں پر قبضے اور اغواءبرائے تاوان سے کروڑوں روپے یومیہ کمارہے ہیں جن میں کالعدم جہادی تنظیمیں بھی شامل ہیں یہی وجہ ہے بلدیاتی انتخابات کے التواءکے مطالبات کے ساتھ کراچی میں بد امنی کی ایک نئی لہر بھی وارد ہوئی اوربلدیہ میں رینجرز اہلکاروں جبکہ صدر میں ملٹری پولیس اہلکاروں پر دن دہاڑے فائرنگ کے واقعات کی وجہ سے کچھ حلقوں کی جانب سے سیاسی مداخلت کے باعث کراچی آپریشن میں کچھ قوتوں کو نظر انداز کئے جانے کے خدشات بھی ظاہر کئے گئے۔
کہیں سے یہ بیان بھی آیا کہ کراچی آپریشن سے کالعدم تنظیموں اور دہشتگردوں کا صفایا نہیں ہوا بلکہ وہ وقتی طور پر استراحت پر چلی گئیں تھی اور اب تازہ دم و منظم ہوکر میدان میں اتر نے کیلئے تیار ہیں اگر اس بات میں کہیں معمولی سی بھی کوئی صداقت ہے تو یہ کراچی کے امن کیلئے ہی نہیں بلکہ سیکورٹی ادارو ں کے وقار کیلئے بھی انتہائی خطرناک ہے کیونکہ بلدیاتی انتخابات کے تیسرے مرحلے میں جب صوبائی حکمران جماعت کراچی میں اپنی فتح کا دعویٰ کررہی ہے ‘ تحریک انصاف و جماعت اسلامی کا اتحاد و اشتراک کراچی میں اپنا میئر لانے کا دعویٰ کررہا ہے اور متحدہ قومی موومنٹ اپنے عوسابقہ مینڈیٹ اور حیدرآباد میں اپنی فتح پیش نظر مستقبل کے کراچی میں بھی خود نمائندہ قرار دے رہی ہے۔
جبکہ اس کی روایتی حریف ایم کیو ایم حقیقی بھی اپنی عوامی ساکھ آزمارہی ہے توکراچی میں ایک ایسا انتخابی دنگل ہونے جارہا ہے جس کے نتائج متحدہ کے حق میں نکلے تو یہ ثابت ہوجائے گا کہ متحدہ حقیقی معنوں میں صوبائی دارالحکومت کے عوام کی نمائندہ جماعت ہے کیونکہ ایسے وقت میں جب کراچی آپریشن کے باعث متحدہ کے یونٹس اور سیکٹر آفس بند ہیں اور اس کے مرکز نائن زیرو سمیت انتخابی دفاتر پر بھی چھاپوں کی اطلاعات کے ساتھ متحدہ کی جانب سے انتخابی مہم میں رکاوٹیں کھڑی کرنے کے الزامات بھی فضا برگوش ہیں کراچی سے اس کے میئر کا انتخاب یقینا اس کے عوامی مینڈیٹ کی تصدیق کہلائے گی اور اس پر ٹھپہ مافیا کا الزام لگانے والے منہ چھپانے پر مجبور ہوجائیں گے جبکہ مطلوبہ نتائج کے حصول میں محرومی ناکامی کیلئے جوازبن جائے گا کہ ایکبار پھر متحدہ کو ریاستی جبرکا نشانہ بناکر عوامی حمایت سے محروم کیا گیا ہے۔
Law and Order
یہی وجہ ہے کہ کچھ حلقے بلدیاتی انتخابات کے موقع پر امن و امان کے حوالے سے انتہائی پریشان ہیں اور ان کا کہنا ہے کہ کراچی کا بلدیاتی سیٹ اپ کراچی سے کثیر سرمایہ یومیہ حاصل کرنے والی جہادی تنظیموں اور مافیاز کیلئے ناقابل قبول ہے اسلئے وہ نہیں چاہتیں کہ یہاں بلدیاتی انتخابات ہوں جبکہ کچھ حلقوں کا کہنا ہے کہ استحصالی عناصر اورروایتی حکمران طبقات کراچی سے متحدہ کی کامیابی اور پھر کراچی پر مصطفی کمال جیسے کسی نوجوان کو میئر اورکراچی کی ترقی کے ذریعے اس پر حکمران جماعت کو ملک بھر کے عوام کیلئے آئیڈیل اور اپنے اقتدار کیلئے خطرہ بنتا نہیں دیکھنا چاہتیں۔
جبکہ کچھ حلقے اس بات پر بھی بضد ہیں کہ کراچی آپریشن میں متحدہ کے ساتھ کئے گئے سخت سلوک اور آپریشن پر متحدہ کی جانب سے لگائے گئے جانبداری کے الزامات نے متحدہ کوسیاسی فائدہ پہنچایا ہے اور اس کی عوامی حمایت میں واضح اضافہ ہواہے جس کا ثبوت حیدرآباد کے بلدیاتی انتخابات میں متحدہ کی فتح ہے اسلئے کراچی کے انتخابی نتائج بھی حیدرآباد سے کچھ مختلف نہیں ہوں گے جن کیلئے متحدہ کو عوام کے ساتھ رینجرز اور پاک فوج کا بھی شکر گزار ہونا پڑے گا!۔
حقائق و نتائج خواہ کچھ بھی ہوں یہ طے ہے کہ بلدیاتی انتخابات کے دو مرحلے طے ہوچکے ہیں اور تیسرے و حتمی مرحلے کے تحت سندھ کے کئی دیگر اضلاع سمیت صوبائی دارالحکومت کراچی میںبھی کل بلدیاتی انتخابات ہونے جارہے ہیں جس کے بعد بلندو بانگ دعووں کی قلعی کھلنے کےساتھ وسوسوں و اندیشوں کی دھول بھی چھٹ جائے گی‘ اللہ کے فضل و کرم سے انتخابی عمل کی پر امن تکمیل کے ذریعے خطرات و خدشات سے بھی نجات مل جائے گی اور عوام کی منتخب بلدیاتی قیادت بھی سامنے آجائے گی لیکن یہ ضروری ہے کہ عوام جس جماعت کا بھی انتخاب کریں اسے میئر بنانے کیلئے واضح اور دو تہائی اکثریت سے ضرور نوازیں تاکہ بلدیاتی قیادت اکثریت کے بل بوتے پرجرا ¿تمندی سے عوامی مفادات کے فیصلے کرنے کے ساتھ صوبائی حکومت سے شہر کی تعمیری و ترقی کیلئے کراچی کا حق مانگنے کی اہلیت کی بھی حامل ہو۔
Political interests
کیونکہ آدھا تیتر آدھا بٹیر کے مصداق کئی ساری جماعتوں میں مینڈیٹ کی تقسیم سے نہ صرف ہارس ٹریڈنگ اور عوامی مفادات پر سیاسی مفادات کی ترجیح و فوقیت کا رجحان بڑھے گا بلکہ فیصلوں کیلئے اکثریت کاحصول کا جوئے شیر عوامی مفادات پر بھی ضرب کاری لگانے کا باعث بنے گا جس کا فائدہ بہر طور استحصالی طبقات کو ہی پہنچے گا۔
دوسری جانب وفاقی دارالحکومتی اسلام آباد میں ہونے والے بلدیاتی انتخابات میں حکومتی جماعت مسلم لیگ (ن) کی فتح روایت کا حصہ مگر تحریک انصاف کی دوسری پوزیشن اس کی عوامی مقبولیت میں اضافہ کاثبوت جبکہ کثیر تعداد میں آزاد امیدواروں کی فتح شخصیت پرستی کا سحر ٹوٹنے اور سیاسی جماعتوں سے عوامی بیزاری کے رجحان کے نمو و افزائش کی دلیل بھی ہے جبکہ اسلام آباد سے مسلم لیگ (ن) کے متوقع میئر زعیم قادری کی شکست دراز گوئی ‘ جھوٹے دعوو ¿ں اور الزامات و بہتان کی سیاست کیخلاف عوام کا احتجاج ہے کیونکہ یہ صفات جذباتیت کی علامت ہےں اور اب عوام جذباتی بلیک میلنگ سے تنگ آچکے ہیں۔
جبکہ چیئرمین تحریک انصاف نے کراچی کے جلسہ کے دوران اسٹیج پر چڑھنے والے نوجوان کارکن کو سرعام تھپڑ رسید کرکے اسی جذباتیت اور اپنے مشتعل و متکبرانہ مزاج کا ثبوت دیا ہے جو یقینا ان کی انتخابی سیاست کیلئے زہر قاتل بن سکتا ہے کیونکہ کراچی کے عوام مہمان نواز ہونے کے ساتھ عزت دار اور نازک مزاج بھی ہیں اور انہیں عمران خان کی یہ ادا بالکل نہیں بھائی ہے اسلئے کراچی کی عوام کی جانب سے تحریک انصاف کی انتخابی اعتماد سے محرومی کی صورت عمران خان کو دھاندلی کا شور مچانے کی بجائے کسی اچھے سیاسی اتالیق سے تربیت اور مستقبل میں جذباتیت سے گریز کی ضرورت ہوگی جبکہ عمران خان کی جذباتیت کراچی میں عرصہ سے عوامی نمائندگی سے محروم ٹھنڈے مزاج کی اتحادی جماعت اسلامی کے ارمانوں کیلئے اوس کا کردار بھی ادا کرسکتی ہے۔