کراچی ٹرانسفورمیشن پلان کا اعلان کیا جاچکا ،اسسے قبل وزیراعظم کی سربراہی میں گورنر ہاؤس میں اعلیٰ سطح کا اجلاس منعقد ہوا، جس میں ڈی جی آئی ایس آئی، کور کمانڈر کراچی، گورنر و وزیراعلیٰ سمیت وفاقی وزراء بھی شریک تھے۔کراچی پیکچ پر عمل درآمد کی شروعات و خدوخال کے حوالے سے تفصیلات آچکیں،تاہم وزیراعظم ابھی کراچی میں ہی تھے کہ دو بیانات نے سیاسی خوشگواری کے فضا مکدر کردی۔ وفاقی وزیر اسد عمر نے قائد حزب اختلاف و صوبائی حکومت پر سیاسی وار کرتے ہوئے انہیں ماضی میں دیئے گئے جذباتی بیانات یاد کراتے ہوئے کہاکہ وہ کراچی کے ایشو پر سیاست نہیں کرنا چاہتے۔ عجب وتیرہ ہے کہ سیاست کرنے کے بعد کہا جائے کہ’سیاست‘ نہیں کرنا چاہتے، بہرحال یہ اتنی اہمیت کا حامل اس لئے نہیں کیونکہ جذباتی بیانات دینے اور اپنے موقف سے پیچھے ہٹنے میں کسی بھی جماعت نے کوئی کسر نہیں چھوڑی۔ اہم بیان بلاول بھٹو زرداری کا رہا، جس میں انہوں نے کہا کہ وزیراعظم کے 1100ارب روپے کے پیکچ میں 800ارب روپے کے منصوبے سندھ حکومت کے ہیں۔ کراچی پیکچ میں وفاق کی جانب سے صرف300ارب روپے شامل کئے گئے۔بلا ول نے کراچی پیکچ کو ایک اچھا آغاز قرار دیتے ہوئے یہ بھی کہا کہ وفاق سے اپنا حق لینا ہوگا۔اسد عمرنے بیان کی تردید کی اور صرف چنگ گھنٹوں میں سیاسی پوائنٹ اسکورنگ کا سلسلہ شروع ہوگیا جو شد و مد کے ساتھ جاری و ساری ہے۔
ہمارا مسئلہ یہ ہے کہ ہم کسی مسئلے کو اُس وقت تک سنجیدگی سے نہیں لیتے جب تک وہ آئی سی یو میں نہ چلا جائے۔عمران خان نے وزرات اعظمیٰ میں کامیابی کے لئے ایم کیو ایم پاکستان کے ساتھ معاہدہ کرتے ہوئے کراچی پیکچ کا اعلان کیا تھا۔دو جماعتی مفاہمتی معاہدے پر عمل درآمد نہ کئے جانے پر ایم کیو ایم پاکستان نے اپنے تحفظات سے بارہا وزیراعظم کو آگاہ کیا، لیکن ان کی کوئی مجبوری رہی ہوگی کہ وفاقی کابینہ سے علیحدگی کے باوجود انہوں نے ماضی کی روایتوں کے برعکس حزب اقتدار کی نشستیں چھوڑنے سے گریز کیا۔ وفاقی وزرات میں تبدیل ہوئی اور خالد مقبول صدیقی کی جگہ امین الحق براجمان ہوگئے، لیکن مفاہمتی معاہدے پر عدم عمل درآمد اور اپنے سابق مئیر وسیم اختر کے اختیارات و فنڈ کی کمی کا رونا جاری رہا، ایم کیو ایم پاکستان اگر وفاق پر دباؤ بڑھانا چاہتی تو اُن کے پاس کافی آپشن تھے اور ہیں، یہ سب’جمہوری اقدار‘کے مطابق ہی ہیں،تاہم انہوں نے پیپلز پارٹی کی جانب سے پر کشش آفر مسترد کرتے ہوئے سندھ حکومت کا حصہ بننے سے انکار کرکے سب کو ششدر بھی کیا کہ جب وفاق قریباََ معاہدے کی پاسداری نہیں کررہا توان کا وفاق کا حصہ بنے رہنا ’ناقابل فہم‘ہے۔تحریک انصاف،آج بھی ان کی شدید ناقد ہے،انہوں نے کراچی میں تاریخی ووٹ ’لینے‘ والی نشستوں پر بدترین ناکامی کا ذمہ دارنادیدہ قوتوں کو سمجھنے کے باوجود پی ٹی آئی کا اتحادی بننا قبول کیا اور فخریہ اعلان کیا تھا کہ ان کی 7 نشستوں نے وہ کام کردکھایا جوناممکن تھا، لیکن ان کے تحفظات ختم نہ ہوئے کہ معاہدے پر عمل درآمد نہیں ہورہا۔ پی پی پی،یم کیو ایم اور اب پی ٹی آئی کے ساتھ ساجھے داری حیران کن نہیں کیونکہ سیاست میں کچھ بھی حرف آخر نہیں ہوتا۔
1100ارب روپے کے منصوبے ایک ، تین اور پانچ برسوں میں (شاید) تکمیل کئے جائیں گے، لیکن سیاسی پنڈتوں نے اسے انتخابی پیکچ قرار دیا ہے ایک برس کے دوران بلدیاتی انتخابات ہونے کی توقع ہے اس لئے بلدیات میں کامیابی کے لئے کچھ ایسے ترقیاتی کام کئے جائیں گے جس سے رائے عامہ تبدیل کی جاسکے، یہاں تینوں جماعتوں کے درمیان مفادات کا ٹکراؤ کا خدشہ ہے کیونکہ بلاول بھٹو کہہ چکے ہیں ’کہ 800ارب روپے کے منصوبے سندھ حکومت کے ہیں‘ اس لئے ایک برس کے دوران جتنے بھی ترقیاتی کام اگر کرائے گئے تو اس کا کریڈٹ پی پی پی مخالف جماعتیں بھی لینے کی کوشش کریں گی۔ دوسری جانب پی پی پی دعویٰ کرچکی ہے کہ کراچی کا اگلا مئیر جیالا ہوگا اس لئے ووٹ بنک مضبوط بنانے کے لئے انہیں عوام میں اپنی کارکردگی کو بڑھا چڑھا کر پیش کرنا ہوگا۔ اسی طرح تین برس میں مکمل ہونے والے منصوبے آئندہ قومی و صوبائی انتخابات کی تیاری کا حصہ قرار دیئے جا رہے ہیں،تاہم یہاں بھی انہی تینوں جماعتوں کے مفادات کا ٹکراؤ یقینی دکھائی دیتاہے۔حل شاید یہ نکالا جائے کہ ترقیاتی کام کی تختی پر کچھ اس طرح لکھا جائے کہ وزیراعظم پاکستان کا ’کراچی ٹرانسفورمیشن پلان‘ بدست گورنر صاحب،نیچے وزیراعلیٰ صاحب، اس کے مزیدنیچے ایم کیو ایم کے کسی رہنما کا نام ہو،اگر سیاست میں لچک کو مزید بڑھا دیا جائے تو یہ ناممکن نہیں کہ آئندہ انتخابات میں تینوں جماعتوں کا سیٹ ایڈجسٹمنٹ کے نام پر انتخابی اتحاد ہوجائے۔
وزیراعظم نے پاک فوج کا ذکر کرتے ہوئے ان کے کردار کو کلیدی قرار دیا،اس لئے زیادہ تر منصوبے پاک فوج کی زیر نگرانی ہوں گے، کراچی میں امن کے قیام کے لئے جس طرح پاک فوج نے کردار ادا کیا، وہ یقیناََ قابل تحسین ہے، اب توقع کی جا رہی ہے کہ منصوبوں میں ایسے محروم علاقوں کو ترجیحات میں شامل کیا جائے جنہیں خصوصی طور پر لسانیت، صوبائی تعصب، نسل پرستی اور قوم پرستی کی وجہ سے نظر انداز کیا جاتا رہا، اگر اب بھی ہمیشہ کی طرح پوش علاقوں میں ہی ترقیاتی منصوبے کے فنڈز صَرف کئے جانے ہیں تو پھر ان علاقوں کا مکمل انتظام بلدیاتی اداروں کے حوالے کردیا جائے، لیکن ایسا ہونا ممکن نہیں، کیونکہ یہاں بھی مفادات کا ٹکراؤ موجود ہے۔
اہل کراچی1960سے مختلف حیلوں بہانوں اور نفرت انگیز سیاست کی بھینٹ چڑھ رہے ہیں۔ وزیراعظم نے کراچی آمد پر جو اعلانات کئے اور نگران کمیٹی قائم کی ہے تو اس پہلو پر توجہ مرکوز کرنے میں ضرورت زیادہ ہے کہ اسے کراچی میں احساس محرومی کے خاتمے کی حتمی کوشش سمجھی جائے۔ شہر قائد تمام قومیتوں کا مشترکہ گلدستہ ہے۔ اس شہر پر سب کا حق یکساں ہے۔ اس شہر کا ایک ایک فرد پاکستانی معیشت کے لئے جزو لانیفک ہے، وزیراعظم کے کراچی دورے سے ایک دن قبل آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ نے کہا کہ کراچی کے مسائل جلد حل کیے جائیں گے، کراچی کو 3 سال میں مکمل تبدیل کیا جائے گا۔ انہوں نے مسئلے کی درست نشاندہی کرتے ہوئے کہا کہ’ہمارا مسئلہ وسائل کی دستیابی نہیں بلکہ ترجیحات کو درست کرنا ہے‘۔لہذا اس اَمر کو بخوبی سمجھا جا سکتا ہے کہ کراچی یا کسی بھی شہر یا علاقے کے لئے کتنا بڑا پیکچ ہی کیوں نہ دے دیا جائے، اگر اس کی ترجیحات درست نہیں ہوگی تو اس کے نتائج بھی مثبت نہیں آئیں گے، ترجیحات درست کرلیں، مسئلے حل ہونا شروع ہو جائیں گے۔