وزیراعظم نے گزشتہ اتوار کراچی کے مختصر دورے میں تاجر برادری کو تعاون کا یقین دلایا تھا جس سے سرمایہ کاروں کا کچھ اعتماد بحال ہوا اور جب کاروباری ہفتے کا آغاز بروز پیرکو ہوا تو حصص کی مالیت میں120ارب روپے کا اضافہ دیکھنے میں آیا اور کے ایس ای 100 انڈیکس میں 737 سے زائد پوائنٹس کے اضافے کے نتیجے میں انڈیکس نے 39 ہزار پوائنٹس کی نفسیاتی سطح عبور کی۔ کراچی کے بلڈرز کو بھی خوش خبری ملی اور 18مہینوں بعد سپریم کورٹ نے کثیرالمنزلہ عمارتوں کی تعمیرات پر عائد پابندی اٹھا دی۔’ آباد’ کا دیرینہ مطالبہ ہوا اور 300کے قریب رکے ہوئے پراجیکٹ پر کام کا آغاز کردیا گیا ۔پابندی عاید کرتے وقت عدالت عظمیٰ نے بڑے سخت ریمارکس دیئے تھے ۔ تاہم اس حوالے سے ابہام باقی ہے کہ کثیر المنزلہ عمارتوں کو بلدیاتی سہولیات میں پانی کی فراہمی کس طرح ممکن بنائی جائے گی۔ کیونکہ شہر کراچی میں پانی کا بحران کئی برسوں سے بھیانک صورتحال اختیار کرچکا ہے۔یہاں تک کہ زیر زمین پانی کی سطح سینکڑوں فٹ کم ہو چکی ہے۔
تاجر برداری ابھی کمر باندھنے کے لئے تیار ہوئی ہی تھی کہ یکا یک گیس کا شدید بحران پیدا ہوگیا، سوئی سدرن گیس نے گھریلو و کمرشل صارفین کی طلب پوری کرنے کے لئے غیر معینہ مدت تک سی این جی سیکٹر کو گیس کی فراہمی بند کرنے کا اعلان کردیا۔ چیئرمین بزنس مین گروپ و سابق صدر کراچی چیمبر سراج قاسم تیلی نے کا کہنا تھا کہ وزیر اعظم عمران خان نے 2روز پہلے کراچی میں ملاقات میں یقین دہانی کرائی تھی کہ ایس ایس جی سی صنعتوں اور کیپٹیو پاور پلانٹس کی گیس منقطع نہیں کر ے گی۔ وزیر اعظم نے گیس بحران کا نوٹس لیتے ہوئے ایم ڈی سوئی سدرن اور نادران کے خلاف72 گھنٹے میں انکوئری کا حکم اور بورڈ آف ڈائریکٹر ز کو تحلیل کر دیا۔
وزرات پٹرولیم کے اعلامیہ نے توتاجر برادری اور ٹرانسپورٹر کے ہوش اڑا دیئے تھے کہ رواں ماہ گیس ملنے کا کوئی امکان نہیں ہے تاہم جب سندھ حکومت نے سخت احتجاج کیا تو وفاقی وزیر پٹرولیم کراچی پہنچے اور سی این جی سیکٹر کو گیس کی فراہمی کی یقین دہانی کرائی کہ اُس وقت اسلام آباد جائوں گا جب رات 8بجے(ہفتہ) اسٹیشن پر سی این جی ملنا شروع ہوجائے گی۔
بالاآخر 5دنوں کی بندش کے بعد سی این جی اسٹیشن کھل گئے۔ گیس غیر معینہ مدت تک غائب ہونے کی اطلاعات سے توانائی کا بحران بھی پیدا ہونے کا خدشہ پیدا ہوا تھا۔گیس بندش سے اہل کراچی دوہری مشکلات و مسائل کا شکارہوئے۔ سوئی سدرن گیس کے غیر متوقع عمل سے70فیصد صنعتوں کی پیداوار شدید متاثر ہوئی۔ دوسری جانب عوام کو پبلک ٹرانسپورٹ نہ ملنے سے شدید پریشانی کا سامنا رہا۔پبلک ٹرانسپورٹ میں مالکان نے اپنی گاڑیوں سے پٹرول اور ڈیزل کا نظام بھی نکال دیا تھا اس لئے سی این جی نہ ملنے سے کراچی کا پہیہ جام ہوا ۔ پبلک ٹرانسپورٹ کی 90ہزار گاڑیاں گیس بحران سے متاثر ہوئی۔ پبلک ٹرانسپورٹ میں ایل پی جی کا بھی استعمال کیا جاتا ہے لیکن ایل پی جی گیس بھی قلت کا شکار ہے۔ تقریباََ10کروڑ روپے یومیہ ٹرانسپورٹرز کومالی نقصان کا سامنا ہوا۔ ایسی چھوٹی پبلک ٹرانسپورٹ جو پٹرول پر چل رہی تھی انہوں نے کرایوں میں ہوش ربا اضافہ کردیا جس سے براہ راست عوام متاثر ہوئی۔ سرد موسم ہوتے ہی گھریلو صارفین لوڈ شیڈنگ اور گیس کے کم پریشر کی وجہ سے الگ پریشان ہیں۔ تجاوزات ایشو کے بعد اب گیس قلت پر سیاسی پوائنٹ اسکورنگ عروج پر ہے۔یہ جاننا ضروری ہے کہ گیس کا اتنا بڑا شارٹ فال کیونکر اور کن مقاصد کے لئے کیا گیا ۔اس حوالے سے تحقیقات کو یقینی بنایا جانا ضروری ہے۔
چھوٹے بڑے کاروباری طبقے کو کراچی میں سہولیات کی فراہمی اور محفوظ ماحول فراہم کرنا ریاست کی اولین ذمے داری ہے۔ لیکن اہل کراچی کو آئے روز نئے مسائل کا سامنا دیکھنے میں آرہا ہے۔ کراچی میں کئی برسوں بعد دہشت گردی کے واقعات میں کمی واقع ہوئی اور امن بحال ہوا ۔ لیکن کراچی امن کے دشمنوں نے عوام میں خوف و ہراس پیدا کرنے کے لئے پے در پے متعدد واقعات کرکے کراچی کی عوام میں تشویش کی لہر دوڑانے کی کوشش کی ۔ گلستان جوہر میں ایم کیو ایم پاکستان کے زیر اہتمام عید میلاد النبی ۖ کی تقریب کے نزدیک ، ڈیفنس میں واقع ایک خالی پلاٹ ، قائد آباد پل کے نیچے عارضی بازار اور چینی قونصل خانے میں دہشت گردی کے واقعات ہوچکے تھے ۔ 2017میں کراچی میں دہشت گردی کا کوئی بڑا واقعہ رونما نہیں ہوا تھا اور سیاسی ، سماجی و کاروباری سرگرمیاں تیزی سے بحال ہو رہی تھی لیکن ملک دشمن عناصر نے کراچی کے امن کو دوبارہ سبوتاژ کرنے کے لئے ایسی واقعات پے در پے کرنے شروع کردیئے جس کی وجہ سے اہل کراچی نے قانون نافذ کرنے والے اداروں سے قیام امن کے لئے مزید اقدامات کرنے کی اپیل کی ہے۔ کیونکہ کراچی بے امنی سے عوام کے ساتھ تاجر برادری اور صنعتیں متاثر ہوتی ہیں اس لئے قانون نافذ کرنے والے اداروں نے مزید چابک دستی سے جرائم پیشہ افراد کے خلاف کریک ڈائون کیا اور اس کے نتیجے میں عزیز آباد میں واقع ایک مکان سے غیر قانونی اسلحے کے دوسری بہت بڑی کھیپ پکڑی گئی ۔
مارچ 2015 میں ایم کیوایم کے مرکزی دفتر پر رینجرز نے چھاپا مارا گیاتھا۔ اس وقت کچھ ملزمان روپوش ہوگئے تھے، جن میں سے رینجرز نے دونوں ملزمان کو نارتھ کراچی سیکٹر ٹین سے ڈھونڈ نکالا۔دونوں ملزمان کی نشاندہی پرعزیز آباد میں ایک مکان پرچھاپا مارا گیا۔ دیوار توڑی گئی تو ایس ایم جیز، ایم جیز، ایل ایم جیز، ایچ ایم جیز، رائفلز آر پی جی سیون، گرینڈ لانچرز، مشین گنز اور بھاری تعداد میں اسلحہ اور گولیاں برآمد ہوئیں۔ واضح رہے کہ 2016میں زیر زمین ٹینک سے اسلحے کے بہت بڑی کھیپ پکڑی جا چکی تھی۔ اس کے بعد غیر قانونی اسلحے کے یہ دوسری بڑی کھیپ ہے جسے رینجرز نے برآمد کیا اور کراچی کو بڑی تباہی سے بچایا کیونکہ گرفتار ملزمان کو اہم شخصیات کو ٹارگٹ کرنے کا ٹاسک بھی دیا گیا جس سے کراچی میں امن کے لئے کی جانے والی کوششوں کو نقصان پہنچ سکتا تھا۔اسی سلسلے میں کراچی کی تین جیلوں میں رینجرز نے سرچ آپریشن بھی کیا ۔
غیر قانونی تجاوزات کے خلاف کاروائی پر نظر ثانی کی دائر درخواستوں کو سپریم کورٹ نے خارج کرتے ہوئے میئر کراچی کو ٹاسک دیا کہ وہ قانون کے مطابق کام کرتے رہیں ۔ میئر کراچی کی کارکردگی کو سپریم کورٹ کی جانب سے سراہا بھی گیا جس کے بعد میئر کراچی نے ڈاکٹر فاروق ستار ، پی پی پی اور جماعت اسلامی سمیت اُن تمام جماعتوں کو آڑے ہاتھوں لیا جو ان مسلسل تنقید کر رہے تھے ۔کراچی کومسائل سے نکالنے اور عوام کا اعتماد بحال کرنے کیلئے ریاست کو کراچی ترجیحات میں رکھنا ہوگا۔
کراچی کا پہیہ چلنے پر ہی مملکت کی معیشت کو استحکام منحصرہے۔ وزیر اعظم کو کراچی کے لئے دیئے جانے والے پیکچ پر فوری عمل درآمد کی ضرورت ہے۔ امن کے ساتھ گیس بحران کا پیدا ہونا اور اس سے مزید بحرانوں کا جنم لینا ملکی معیشت کے لئے نقصان کا سبب بن سکتا ہے ۔ کراچی میں گیس بحران کو جلد حل نہ کیا جاتاتو ملکی معیشت کو ناقابل تلافی نقصان پہنچنے کا خدشہ تھا۔ سندھ حکومت نے وفاق سے احتجاج و مطالبہ کیا ہے کہ شہر کراچی، ریاست کی توجہ کا طلبگار ہے۔شہر کراچی کی سنسان سڑکیں ، بند صنعتیں اور بے امنی کی نئی ریاست کی تمام مثبت کوششوں پر پانی پھیر سکتی ہے۔