کراچی (جیوڈیسک) چیف جسٹس افتخار محمد چودھری کی سربراہی میں لارجر بنچ کراچی بد امنی کیس کی سماعت کر رہا ہے۔ اٹارنی جنرل منیر اے ملک نے عدالت کو بتایا کہ عدالت نے پولیس، رینجرز، اے این ایف اور کسٹمز حکام کے ساتھ اجلاس کی ہدایت کی تھی جس کی روشنی میں اسلحہ اور منشیات کی سمگلنگ کی روک تھام کے لئے لائحہ عمل طے کر لیا گیا ہے۔ چیئرمین ایف بی آر سمگلروں کے خلاف ایکشن پلان پیش کریں گے۔ چیف جسٹس نے ایکشن پلان مسترد کرتے ہوئے ریمارکس دیے کہ ایکشن پلان میں قانون کی وضاحت کی گئی ہے۔ یہ نہیں بتایا گیا کہ کرنا کیا ہے۔ ان کا کہنا تھا جنرل جیسا طاقتور افسر بھی یوسف گوٹھ کا نام لکھنے سے ڈرتا ہے۔ چیف جسٹس نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ ہمیں آج شام سے پہلے رزلٹ چاہیے۔
بتایا جائے کہ 3 سال میں کتنا اسلحہ سمگل ہو کر کراچی آیا۔ آپ نے دشمن کو کہیں چیلنج نہیں کیا۔ دشمن ہی آپ کوچیلنج کرتا ہے۔ ہمیں نہیں بتایا گیا کہ 1994 میں آنے والا اسلحہ کس کا ہے۔ چیف جسٹس نے چیف کسٹم کلکٹر سے مخاطب ہو کر سوال کیا کہ ڈیلروں کے لئے اسلحہ آپ کے ذریعہ آ رہا ہے۔ چیئرمین ایف بی آر کا کہنا تھا کہ یہ اسلحہ دونوں بندرگاہوں کے ذریعہ آتا ہے جس پر چیف جسٹس نے کسٹم حکام کو حکم دیا کہ کنٹینر کے ذریعے آنے والے اسلحے کی رپورٹ پیش کی جائے۔ کسی بھی ایجنسی سے کلین چٹ لا کر دیں کہ کراچی ڈرگ فری ہے۔
ہر آدمی نے فیصلہ کر لیا ہے کہ صرف اپنا گھر دیکھنا ہے۔ انہوں نے کہا کہ آپ نے فیصلہ کر لیا ہے کہ منشیات کے خلاف آپریشن کرنا ہی نہیں۔ جسٹس جواد ایس خواجہ نے ریمارکس دیے کہ کالا دھن کراچی میں بدامنی کے لئے استعمال ہو رہا ہے۔ اسلحہ اور منشیات پر قابو پا لیا جائے تو کراچی میں امن قائم ہو سکتا ہے۔ چیف جسٹس نے عدالت میں موجود حکام سے کہا کہ نیٹو کنٹینرز گم نہیں ہوئے تو وضاحتیں کیوں دی جا رہی ہیں۔