کراچی (جیوڈیسک) وزیر بلدیات کا یہ بھی کہنا تھا کہ بلدیہ عظمی واحد کونسل ہے جسے ماہانہ گرانٹ دی جاتی ہے۔ منتخب بلدیاتی نمائندوں کے سامنے یہ بڑا چیلنج ہوگا کہ وسائل بڑھائیں۔
جہاں تک انہیں اختیارات دئیے جانے کی بات ہے تو بلدیاتی نمائندوں کو وہ تمام اختیارات ملیں گے جو قانون نے دیئے ہیں۔‘‘
نئے سٹی کونسل ہال میں نشستوں کی تعداد 255 سے بڑھا کے 324 کردی گئی ہے۔ مئیر اور ڈپٹی مئیر سمیت 309 اراکین ایوان کا حصہ ہوں گے اور اسی ہال میں ان کی نشستیں ہوں گی۔
سٹی کونسل ہال کو برطانوی دور کی تاریخی حالت میں بحال کیا گیا ہے۔ سرکاری طور پر بتایا جا رہا ہے کہ کراچی کے مئیر اور ڈپٹی مئیر کا انتخاب 24 اگست کو جبکہ ان کی حلف برداری 30 اگست کو ہوگی۔ مئیر کے انتخابات کے بعد یہاں چھ سال بعد اجلاس منعقد ہوگا۔
ڈائریکٹر کراچی میٹروپولیٹن غفران احمد کے مطابق چونکہ عمارت تاریخی ورثہ ہے۔ لہٰذا، اس کی بناوٹ میں کوئی تبدیلی نہیں کرسکتے تھے۔ لہذا تاریخی طرز پر ہی تزئین کی گئی ہے۔
تاریخ کا حوالہ دیتے ہوئے انہوں نے بتایا کہ اس عمارت کا افتتاح 1933میں ہوا تھا۔ اس میں قائم سٹی کونسل ہال سندھ اسمبلی کی عمارت جیسی دلکش تو نہیں، لیکن اپنی مثال آپ ہے۔
غفران احمد نے بتایا کہ 2013 کے سٹی کونسل ایکٹ کے تحت میئر کونسل کے اجلاس کی صدارت کرے گا اور اسی کو اسپیکر کے فرائض انجام دینا ہوں گے، میئر کی عدم موجودگی میں ڈپٹی میئر یہ فرائض انجام دے گا۔
کراچی میں بلدیاتی انتخابات گزشتہ سال 5 دسمبر کو ہوئے تھے، لیکن ابھی تک بلدیاتی نمائندوں کو شہری حکومت کو قائم کرنے کا موقع نہیں مل سکا ہے، اب امید ہے کہ اگلے ماہ کے آغاز کے ساتھ ہی سٹی کونسل ہال آباد ہوجائے گا اور ملک کے سب سے بڑے و تجارتی شہر کے معاملات یہیں سے چلائے جائیں گے۔
5 دسمبر کو ہونے والے بلدیاتی انتخابات کے تیسرے مرحلے میں متحدہ قومی موومنٹ نے سب سے زیادہ 135 نشستیں حاصل کی تھیں جبکہ اس کے بعد ترتیب وار پاکستان پیپلز پارٹی، مسلم لیگ، تحریک انصاف، جماعت اسلامی، جے یو آئی اور اے این پی کا نمبر آتا ہے۔