تحریر : محمد اعظم عظیم اعظم چلیں پہلے بات ہوجائے پچھلے دِنوں بلوچستان میں ہونے والے ایک امریکی ڈرون حملے میں طالبان رہنماملااختر منصور کی ہلاکت اور اِس کے بعد پاکستان سمیت جنوبی ایشیااور اِس حوالے سے بالخصوص کشیدہ ہوتے پاک امریکا تعلقات اوربدلنے والے سیاسی نقشہ کی تو عرض یہ ہے کہ آج بلوچستان میں ملااخترمنصور کی ہلاکت کا ذمہ دار ایران اور بھارت بھی اتنے ہی حصے دار ہیںجتناکہ امریکاہے اور بلوچستان میں ملااختر منصورکی ہلاکت کا منصوبہ بنانے میں ایران اور بھارت بھی شامل ہیںاِس کا بھی ہمیں باریک بینی سے جائزہ لیناہوگا اور اصل حقائق دنیا کے سامنے آشکارکرنے ہوں گے کہ ملااخترمنصور کی ہلاکت میں کون کون اور کتناذمہ دار تھا تاکہ پاکستانیوں سمیت دنیاکو لگ پتہ جائے کہ امریکااپنے مفادات کے حصول کے لئے کن کن کو کس طرح سے استعمال کرکے کس کس کی کن کن خواہشات اور تعلقات کا کس طرح سے خون کرنے سے بھی دریغ نہیں کرتاہے۔
جبکہ اِس سے انکارنہیں کہ آج اندرباہراور ہر طرف سے پاکستان کی خارجہ پالیسی کو ہدف تنقید بنایاجارہاہے ہماری خارجہ پالیسی کوہدفِ تنقیدبنایاجانا بجاہے کیونکہ اول میں تو ہماری موجودہ حکومت میں جہاں ڈھیروں وزارتیں ہیں تو وہیں افسوس کی بات یہ ہے کہ اِن وزارتوں میں نہیں ہے تو بس ایک وزارتِ خارجہ ہی نہیں ہے۔ آج اگر ہمارے یہاں وزارتِ خارجہ ہوتی تو ممکن ہے کہ موجودہ صورتِ حال میں کم ازکم کوئی ہماری خارجہ پالیسی پر تنقیدکرنے سے قبل وزارتِ خارجہ سے اپنے سوالات اور تحفظات کا اظہارکرتااور پھر ہماری خارجہ پالیسی کو ہدفِ تنقیدبناتا اور وہی دنیا والوں کے سوالات اور تحفظات کا جواب دیتی تو بہت اچھاہوتامگربات یہ ہے کہ وزیراعظم نوازشریف کی حکومت میں حکومتی امور چلانے کے لئے تو دوسری وزارتوں کی تو اہمیت ہے مگر ایک نہیں ہے تو بس وزارتِ خارجہ کی ہی اہمیت نہیں ہے اِسی لئے اُنہوں نے وزارتِ خارجہ کا منصب کسی کو نہیں سونپاہے اور بس اِس وزارت کام چلانے کے لئے اپنے قریبی دوستوں اور یاروں کی صورت میں مشیران مقررکررکھے ہیں
Taliban
اِن میں بھی اختلافات کی خبریں آتی رہتی ہیں یہ ایک دوسرے کی ماننے اور آپس کی سُننے اور ایک پوائنٹ پر مل بیٹھنے کو بھی تیار نہیں رہتے ہیں اِسی وجہ سے جو اپنی مرضی سے جیساچاہتے ہیں کرتے ہیں اور کہتے ہیں۔جبکہ آج ضرورت اِس امر کی ہے کہ ن لیگ کی حکومت موجودہ حالات اور واقعات کی روشنی اور اگلے دِنوں میں پاکستان اور خطے تحریک طالبان کے خطرات سمیت افغانستان ، بھارت اور ایران کے چاربہابندرپر سہ مُلکی تجارتی راہداری کی تعمیرکے حوالوںسے پیداہونے والی صورتِ حال کا احاطہ کرسکے اور دنیاکو اصل حقائق سے آگاہ کرسکے بیشک یہ کام پاکستان کی وزارتِ خارجہ کے علاوہ کوئی اور نہیں کرسکتاہے ہے سوضروری ہے کہ مستقبل کے حالات اور واقعات کے پیشِ نظر حکومتِ پاکستان جلد ازجلد وزارتِ خارجہ کا منصب کسی معقول شخص کو سونپ کراچھاکام کرے گی ۔
بہرحال ،سندھ میں پاکستان پیپلز پارٹی کی حکومت کے باواآدم کے تو انداز ہی نرالے ہیں، جس میں ہر بندہ اپنی مرضی کا مالک ہے، جوجیساکہتاہے بس وہی سچ ہے، جیساجوسوچتاہے، ویساہی چاہتاہے، یعنی یہ کہ جیساجو چاہتاہے ویساہی دیکھنا چاہتاہے۔اَب ایسے میں بھلے سے عوام کا کچھ بھی نقصان ہوتاہے تو ہوجائے، اِس سے کسی کو کوئی سروکار نہیں ہے، اگر کسی کو کچھ فکر ہے تو بس ایک یہی ہے کہ اِس کاکہااور سوچاہواسچ ہوجائے۔آج یقینی طور پر سندھ حکومت کے کرتادھرتاو ¿ں کی وجہ سے کراچی سمیت سندھ کے بے شمار شہر اور گاو ¿ں ایسے ہیں جو کاغذوں اور فائلوں میں تو ترقی اور خوشحالی کا مقابلہ امریکا اور یورپ کے شہروں سے کرتے ہوئے نظرآئیں گے مگر حقیقی معنوں میں یہ شہرتوپنجاب کے شہرلاہورکا مقابلہ کرنے کے قابل بھی نہیں ہیں امریکا اور یورپ کے شہروں کی باتیں تو بہت دور کاخواب ہے ۔
MQM
اِس سے بھی انکار نہیں کہ سندھ میں پی پی پی کی حکومت نے کراچی میں ایک سیاسی جماعت ایم کیو ایم کا ووٹ بینک توڑنے اور شہرکراچی میں اپنی سیاست چمکانے اور اپنا زبردستی کاسیاسی قد اُونچاکرنے کے چکرمیں کراچی سمیت سندھ کے ایم کیو ایم سے تعلق رکھنے والی شہروں اور گاو ¿ں کو پانی جیسی قدرتی نعمت او ر دیگر وسائل سے محروم رکھ کرایم کیو ایم کے شہروں کو آثارِ قدیمہ اور قبلِ مسیح کے تباہ شدہ شہر وں بدل کررکھ دیاہے، اگر میری بات پر سندھ حکومت کے کسی بھی کرتادھرتاکو یقین نہ آئے تو وہ تھوڑی سی دیر کو دامنِ بھٹواور زرداری سیاست اور مفاد پرستانہ رویوں کوکو چھوڑکر تنہائی میں اپنے کلیجے پر ہاتھ رکھ کر اور اللہ کو حاضروناظرجان کر اپنے کئے کا محاسبہ کرے تو اُسے خود یہ لگ پتاجائے گاکہ اِس نے سندھ حکومت کاکروڑوں ، اربوں اور کھربوں کا بجٹ کراچی سمیت سندھ کے دیگر شہروں اور گاو ¿ں کی ترقی اور خوشحالی کے بجائے،کن ذاتی اور سیاسی مقاصد کے لئے استعمال کیا ہے،اورسندھ میں حقِ حکمرانی کا دعویٰ کرکے بھی سندھ بشمول کراچی کے لوگوں کو صاف پینے کے پانی سمیت سستے علاج و معالج کے مراکز ، کشادہ سڑکوں اور جدیدسفری سہولیات سے محروم رکھ کر ماضی و حال میں سندھ اور وفاق میں پاکستان پیپلز پارٹی کی حکومتوں کے کرتادھرتاو ¿ں نے کب کراچی اور سندھ کی ترقی اور خوشحالی چاہی تھی ..؟؟
اِسی طرح آج بھی یہ کوئی حیرت کی بات نہیں ہے کہ سندھ کے ریگستانی علاقے تھر میں غذائی قلت اور پینے کے پانی کے بحران کے باعث وہاں اِنسانوں کی اموات کی بھی ذمہ دار یہی سندھ حکومت ہے جس نے اپنے وسائل کو بروئے کارلاکر تھر کو تو کراچی جیسا جدیدشہرنہ بنایا مگر دنیاکے بارہویں انٹرنیشنل شہرِ کراچی کی موجودہ حالات اور پانی کی تلاش میں سرگرداں بالٹیاں اور پیپے ڈبے اُٹھائے بھاگتے دوڑتے مردو خواتین اور بچے اور بچیوں کو دیکھ کر یہ ضرور کہاجاسکتاہے کہ پاکستان پیپلزپارٹی والوں کی سندھ حکومت نے اپنے مدِ مقابل کھڑی ہونے والی شہرِ کراچی سے تعلق رکھنے والی سندھ کی ایک بڑی سیاسی جماعت متحدہ قوومنٹ پاکستان( ایم کیو ایم) کو دیدہ و دانستہ نیچادکھانے اور اِس سے سیاسی انتقام لینے کے خاطر شہرِ کراچی کا پینے کا پانی روک کر عوام کو پریشان کررہے ہیں اور اپنے روٹی ، کپڑااور مکان کا منشوراور جیئے بھٹوکے نعرہ پرخود ہی سوالیہ نشان لگارہے ہیں
Thar desert
اپنے شہیدوں کی روح کو تڑپانے کا بندوبست کررہے ہیں اور کراچی کو تھر جیسا ریگستان بنانے کے لئے اپنی سیاسی توانائیاں صرف کررہے ہیں اور اِس طرح پی پی پی والے اپنے اُوچھے ہتھکنڈوں سے کراچی پر اپناقبضے کا خواب لئے پل پل نت نئے انداز اپنارہے ہیں آج یوں پی پی پی والوں نے اپنی اُوچھی سیاست کا ڈھونگ رچاکر شہرِ کراچی کے عوام کو پانی کے ایک ایک بوندسے ترسادیاہے اگرچہ ابھی بہت وقت ہے کہ پی پی پی کی حکومت وفاق اور سندھ حکومتوں سے حاصل ہونے والی رقوم اور اپنے وسائل کوبروئے کارلائے اورپانی کی بوندبوند کو ترستے کراچی سمیت سندھ کے شہروں اور گاوں اور تھرکو بھی پانی کی فوری فراہمی یقینی بنائے اوراِسی طرح اُبلتے گٹروں اورگندگی اور غلاظت کے ڈھیروںمیں بدلتے کراچی کو پھر سے صاف سُتھرابنانے کے لئے ایم کیوایم کے نامزد میئر وسیم اختراور ڈپٹی میئر کو ذمہ داریاں سونپ دے تاکہ ایم کیو ایم والے اپنی یکجہتی اور جادوئی طاقت سے شہرکراچی سمیت سندھ کے شہروں اور گاو ¿ں کو صاف سُتھراکردیں ۔