کراچی (جیوڈیسک) سندھ کی ایک بڑی اور بااثر جماعت متحدہ قومی موومنٹ کی جانب سے کارکنوں کی گرفتاریوں اور چھاپوں کے خلاف دو روزہ علامتی بھوک ہڑتال کی جا رہی ہے۔
جمعرات کو ہڑتال کے پہلے روز ایم کیو ایم کے متعدد رہنماؤں اور کارکنوں نے کراچی پریس کلب کے باہر ہڑتالی کیمپ میں شرکت کی۔ ان کارکنوں میں ایک بڑی تعداد لاپتا کارکنوں کے اہل خانہ کی تھی۔
کارکنوں کی رشتے دار خواتین نے اس موقع پر میڈیا اور کیمپ میں موجود افراد سے اپنے بھائی، شوہر اور والد کی گمشدگی سے متعلق تفصیلات سے آگاہ کیا۔
کسی کا کہنا تھا کہ اس کا شوہر ڈھائی سال سے لاپتا ہے تو کسی نے الزام لگایا کہ اس کے بھائی اور دیگر مرد رشتے داروں کو ایک سال پہلے سادہ لباس میں ملبوس افراد اپنے ساتھ لے گئے تھے تب سے اب تک ان کے بارے میں کچھ معلوم نہیں ہوسکا۔
متحدہ رہنماؤں، کارکنوں اور اہل خانہ نے حکومت سے گرفتاریوں اور چھاپوں کا سلسلہ ختم کرنے کا پر زور مطالبہ کیا۔
ایک خاتون نے پولیس کے اعلیٰ افسروں پر جعلی پولیس مقابلوں کا الزام بھی لگایا۔ تاہم، پولیس حکام ان الزامات کی مسلسل تردید کرتے رہے ہیں۔
ایم کیو ایم کے رہنماؤں کا الزام ہے کہ پارٹی کے دفاتر پر اکثر و بیشتر غیر قانونی چھاپے مارے جاتے ہیں، جبکہ کارکنوں کی گرفتاریاں، جبری گمشدگی اور پارٹی سربراہ الطاف حسین کی بھی میڈیا کوریج پر غیر قانونی پابندی عائد ہے۔
بھوک ہڑتال میں ایم کیو ایم کے ارکان پارلیمنٹ، مختلف شعبوں وابستہ افراد اور مختلف واقعات میں ہلاک ہوجانے والے کارکنوں، اسیروں اور لاپتا کارکنوں کے اہل خانہ نے بھی تبادلہ خیال کیا۔
وائس آف امریکہ کو پارٹی کی جانب سے جاری تفصیلات علامتی بھوک ہڑتال دونوں دن سات سات گھنٹوں تک جاری رہے گی۔ علامتی بھوک ہڑتال دوپہر ایک بجے شروع اور شام سات بجے ختم ہوگی۔
ادھر رواں ہفتے ہی رینجرز کو پولیس کے خصوصی اختیارات میں 90روز کی توسیع اور صوبے میں قیام کی مدت میں ایک سال کی توسیع دی ہے جس کے تحت رینجرز کراچی کے کسی بھی علاقے میں سیاسی اور سرکاری دفتر میں کارروائی کی مجاز ہوگی اور گرفتار کیے گیے ملزمان کو 90 روز تک اپنی تحویل میں رکھنے کا اختیار دیا گیا ہے۔
مبصرین اور سیاسی تجزیہ نگاروں کا کہنا ہے کہ ’اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ ان اختیارات کی موجودگی میں ایم کیو ایم اور رینجرز کے درمیان ’کھچاؤ‘ جلد ختم ہونے والا نہیں۔ ‘