کراچی (جیوڈیسک) محمد رفیق مانگٹ برطانوی جریدہا کنامسٹ لکھتا ہے کہ سیاسی جماعتیں، جرائم پیشہ گروہ اور انتہا پسند گروپ جس شہر پر اپنے کنٹرول کے لئے برسر پیکار رہتے ہیں، اسی میگا سٹی کراچی کے بے سکون شہریوں کے لئے اطمینان بخش بات یہ ہے کہ کارکردگی کے لحاظ سے دنیا کی بہترین اسٹاک مارکیٹ کا مرکز بھی یہی شہر ہے۔ رواں برس مقامی کرنسی کے لحاظ سے کراچی اسٹاک ایکس چینج (کے ایس ای) میں40 فی صد اضافہ دیکھنے میں آیا۔
جریدے کی طرف سے دنیا بھر کی اسٹاک ایکس چینج کی کارکردگی کے پیمانے پر کراچی مارکیٹ دنیا میں دوسرے نمبر پر رہی، سرفہرست جاپان کی اسٹاک ایکس چینج ہے۔گزشتہ برس اس کی کارکردگی میں 49 فیصد اضافہ ہوا۔اسٹاک مارکیٹ میں بہترین کارکردگی کی وجہ بڑی وجہ مئی کے انتخابات بھی ہیں۔ پہلی بار پاکستان کی منتخب سویلین حکومت نے اپنی مدت مکمل کی اور اقتدار دوسری حکومت کو منتقل کیا۔ اس کے علاوہ جولائی میں آئی ایم ایف کی طرف سے قرض کا منظور ہونا بھی وجہ ہے۔
کراچی اسٹاک ایکسچینج میں اضافہ نا ن انگلش ممالک کی فرنٹیئر مارکیٹ کے پریشان سرمایہ کاروں کی دلچسپی کی بھی عکاس ہے، حالیہ دنوں میں دنیا کی ابھرتی مارکیٹیں اپنی رفتار برقرار نہیں رکھ سکیں تاہم MSCI فرنٹیئر مارکیٹ انڈیکس میں تیزی سے اضافہ ہوا ،فرنٹیئر مارکیٹ کمزور دل افراد کے لئے نہیں ہے۔کراچی اسٹاک ایکس چینج کا شمار بھی ان میں ہوتا ہے جہاں اثاثہ جات آسانی سے کیش میں تبدیل نہیں ہوتے۔
کراچی مارکیٹ میں درج 569 کمپنیوں میں صرف60 باقاعدگی سے کاروبار کرتیں ہیں۔ مارکیٹ میں تیزی کی ایک وجہ جنوری2012 میں ایمنسٹی کا اعلان تھا جس میں جون2014 تک اس شرط پر اسٹاک خریدنے کی اجازت دی گئی کہ خریداروں سے ان کی دولت یا فنڈز کے متعلق کوئی سوال نہیں کیا جائے گا۔ کراچی مارکیٹ کے سرمائے کا حجم 52.7 ارب ڈالر تھا ،معافی کے اعلان کے ساتھ ہی کے ایس ای پر یومیہ حجم اوسطادوگنا ہوگیا۔ اس معافی کا مقصد غیر دستاویزی معیشت کو ٹیکس نیٹ میں لانا تھا۔
اگرچہ کچھ بدعنوان حکام اور جرائم پیشہ افراد کے لئے اسکیم ایک تحفہ تھی جو ٹیکس حکام کو اس بات سے روکتی تھی کہ یہ کالا دھن کہاں سے آیا۔ ملک کی انسداد منی لانڈرنگ اسکیم اسے متعلقہ بروکر یا بینک پرچھوڑ دیتا ہے کہ وہ جیسا اس کے ساتھ برتاو کرے۔مارکیٹ میں ہیرا پھیری کے الزامات عام ہیں۔
پاکستان کی مارکیٹ ریگولیٹر اتھارٹی سیکورٹیز اینڈ ایکسچینج کمیشن (ایس ای سی پی) کو بروکرز کے ساتھ قربت کی وجہ سے تنقید کا نشانہ بنایا جاتاہے۔ ریگولیٹر کی کارکردگی کی نگرانی کے لئے 13 سال پہلے بورڈ قائم کیا گیا، اس میں نامزد نو رکنی پالیسی بورڈپر چار نشستیں آزاد ممبران کے لئے مختص ہیں جو زیادہ تر خالی رہتی ہیں اور فی الحال خالی ہیں۔ ایس ای سی پی کی طرف سے جرمانے بھی علامتی ہیں ،حکام کا کہنا ہے کہ اگر جرمانے بھاری ہوں تو کمپنی کا نام خارج ہو سکتا ہے۔