کراچی (جیوڈیسک) کراچی میں منگل کا دن ایک نئی بلدیاتی تاریخ رقم کر گیا۔ کراچی کو کئی سال بعد میئر اور نائب مئیر کو شہر کی چابی مل گئی۔ لیکن، وہ جیل سے آیا اور جیل ہی واپس چلا گیا۔
متحدہ قومی موومنٹ کے وسیم اختر نے میئر اور ارشد وہرا نے ڈپٹی ميئر کے عہدے کا حلف اٹھایا کراچی میٹروپولیٹن کارپوریشن کے کمشنر سمیع الدین صدیقی نے دونوں سے ان کے عہدے کا حلف لیا۔
دو درجن سے زائد مقدمات میں گھرے وسیم اختر پیر کو سخت سیکورٹی کے ہمراہ بکتر بند گاڑی میں سینٹرل جیل سے پولو گراؤنڈ کے قریب واقع گلشن جناح پہنچے۔
حلف برداری کی تقریب میں شرکت کی، مختصر خطاب کیا اور واپس جیل چلے گئے۔
وسیم اختر شہر قائد کے 23 ویں میئر ہیں۔ ملک میں جب بھی بلدیاتی تاریخ میں وسیم اختر کا نام آئے گا، وہیں یہ تذکرہ بھی ضرور ہوگا کہ اپنے عہدے کا حلف اٹھانے کے باوجود انہیں جیل میں بی کلاس قیدی کی حیثیت سے رکھا گیا۔ انہوں نے اپنے کام کی ابتدا جیل خانے میں موجود اپنے کمرے میں رکھی ایک میز اور ایک کرسی پر بیٹھ کر کی۔
حلف برداری کے بعد آئی جی جیل خانہ جات، نصرت منگن نے صحافیوں کو بتایا کہ ’جیل مینوئیل‘ کے تحت وسیم اختر کو صرف ایک خدمت گار ملا ہے۔ تاہم، انہیں اپنی مرضی کا کھانا پکانے یا گھر سے منگوانے کی سہولت حاصل رہے گی۔
میڈیا نمائندوں کے سوالات کے جواب میں نصرت منگن نے کہا کہ ’’وسیم اختر کے میئر ہونے یا نہ ہونے سے کوئی فرق نہیں پڑتا وہ عدالتی احکامات کے پابند ہیں۔‘‘
نصرت منگن کے مطابق، نومنتخب میئر کو کہیں بھی آنے جانے کے لئے کار استعمال کرنے کی اجازت نہیں ہوگی بلکہ بکتر بند گاڑی میں ہی سفر کر سکیں گے۔
وہ فون، انٹرنیٹ یا فیکس بھی استعمال نہیں کرسکتے، حتیٰ کہ ان سے میٹنگ کے لئے آنے والے سرکاری افسران کو بھی ’جیل مینوئیل‘ کے تحت ہی ملاقات کی اجازت ہوگی۔