اسیران کربلا کی سپہ سالار تھی زینب کوفہ وشام میں بے تیغ لڑی تھی زینب اسلام کا علم اپنے ھاتھوں میں تھام کر سب بیبیوں کو ساتھ لے کر چلی تھی زینب بے گوروکفن لاشے اپنوں کے چھوڑ کر کس دل سے خالی ھاتھ چلی جارہی تھی زینب دشمن کے ناپاک ارادوں کو بھانپ کر سجاد کی ڈھال بن کے کھڑی تھی زینب کاخ یزید اور ابن زیاد میں اس وقت سامنے ظالم کے ڈٹ کے کھڑی تھی زینب نڈر لہجہ تھا اور گفتار کی اعلی تاثیر اپنے بابا کی ہی تصویربنی تھی زینب کرنے لگے گریہ زاری کاخ امرا سارے دردمیں ڈوبے جو الفاظ بول رہی تھی زینب درد حد سے بڑھ گیا شہر مدینہ میں پہنچ کے قافلہ اسراکا لئے مدینہ پہنچ آئی تھی زینب جاکے روضہ رسول پہ زینب نے رو کر کہا نانا جان سب کو لٹا کے یہ دین بچا لائی ہے زینب