تحریر : شیخ خالد ذاہد اگر آپ کو مطالعہ کا شوق ہے تو آپ اسلام سے قبل کا مطالعہ کریں یا طلوعِ اسلام کے بعد کا انسانیت کی تاریخ جنگ و جدل سے لبریز ہے۔ یہ جنگیں طاقت کے توازن کے بگاڑ کی وجہ سے لڑی جاتی رہیں اور طاقتور اپنا تسلط اپنا رعب و دبدبے کیلئے انسانی جانوں سے کھیلتے رہے ہیں۔ انسانیت کی وحشت و کربناک تذلیل ہوتی رہی ہے اور عزتیں پامال ہوتی رہی ہیں۔ بے رحمی کی اعلی سے اعلی مثالیں قائم کی جاتی رہیں۔ مگر ظلم اور بربریت کی داستانیں رقم کرنے والے اور انسانی خون کی بے حرمتی کرنے والے بے رحم اور سفاک حکمران اپنے کئے پر کبھی بھی شرمندہ اور نادم نہیں دیکھائی دیئے۔ تاریخ کی سیاہ کاریوں سے بھی سبق نا سیکھنے والے عقل کے اندوھوں کی ایک طویل فہرست ہے۔
آج اکیسویں صدی میں بھی یہ جنگ و جدل کا بازار گرم ہے خون آج بھی ویسے ہی بہایا جا رہا ہے جیسے زمانہ جہالیت میں بھایا جاتا تھا۔ جہاں ہم ترقی کی بلندیوں کو چھو رہے ہیں تو وہیں سفاکیت کی اور بے رحمی کی داستانیں بھی رقم کرتے جا رہے ہیں۔ ہمارے پڑوسی ملک بھی جنگی جنون جیسی بیماری میں مبتلا ہوا ہے۔
تاریخ ایک ایسے ہی جنگ و جدل جیسے سانحے کو لے کر ایک طرف تو شرمندہ و نادم دیکھائی دیتی ہے تو دوسری طرف فخر سے حق کا علم بلند کئے دیکھائی دیتی ہے۔ دنیا اس عظیم واقع کو شہادتِ حسین رضی اللہ تعالی عنہ سے یاد رکھے ہوئے ہے۔ یہ اسلامی تاریخ کا بیک وقت روشن اور تاریک باب ہے۔ یہ واقعہ کربلا ہے، جہاں اہلِ بیت پر ہونے والی ظلم اور بربریت کی ایک اور مثال قائم کی گئی۔ جب امام حسین رضی اللہ تعالی عنہ اور انکے اہل خانہ کو بھوک اور پیاس کی حالت میں شہید کیاگیا۔ اس واقع کی جہاں مذہبی اعتبار سے بہت اہمیت ہے وہیں اس واقع سے سیاسی اور شخصی معاملات پر بھی اپنے گہرے اثرات چھوڑے۔ جس کیلئے یہ کہا جاتا ہے کہ “اسلام زندہ ہوتا ہے ہر کربلا کے بعد”۔
Karbala
ظلم کے پہاڑ توڑنے والے، معصوم بچوں اور بچیوں کو پانی کی بوند بوند کو ترسانے والے، شیر خوار بچے پر تیر برسانے والے تاریخ کی تاریکی کے گہرے کنویں کی نظر ہوگئے۔ ہمارا تو ایمان ہے کے شہید زندہ ہوتا ہے اور کربلا والے آج بھی ویسے ہی زندہ ہیں۔ صرف دنیائے اسلام ہی نہیں بلکہ دیگر مذاہب کے لوگ بھی عزمِ حسین رضی اللہ تعالی عنہ اور اہل بیت کی قربانی کو دنیا کے لیئے ظلم کے آگے ڈٹ جانے کی اعلی ترین مثال قرار دیتے ہیں۔
گزشتہ کئی دہائیوں سے کشمیری حق خود ارادیت کی جدوجہد میں بر سرِپیکار ہیں۔ کربلا اور کشمیر میں “ک” کی طرح صورتحال بھی مشترک ہے۔ یہاں بھی معاملہ کسی باطل کے ہاتھ پر بیعت کا ہے ، یہاں کا وزیرِاعلی بھارتی حکومت کا بیعت یافتہ ہوتا ہے اور تمام امور بھی وہیں سے چلائے جاتے ہیں۔ بظاہر تو کشمیر میں کوئی حکومت نہیں بس بھارتی فوج ہی فوج ہے۔ اب ذرا غور تو کیجئے کشمیر پر جو حق کی بقا کی جنگ باطل سے لڑ رہے ہیں یہاں تو نسلوں کی نسلیں اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کرچکی ہیں۔ کشمیر میں بھی معصوم جانوں کا بے رحمی سے قتلِ عام کیا جارہا ہے اور صبح شام کیا جارہا ہے۔
اہل ِ کشمیر بھی حضرت امام حسین رضی اللہ تعالی عنہ کے نقشِ قدم پر چل رہے ہیں، گزشتہ کئی روز سے بھوک اور افلاس ساتھ لئے باطل کے سامنے خیمہ زن ہیں، حق کی بقاء کیلئےگردنیں تن سے جدا کروا رہے ہیں مگر باطل کے آگے جھکا نہیں رہے۔ ڈٹے ہوئے ہیں عزمِ حسین کی طرح اور ہر شام، شامِ غریباں منا رہے ہیں، ہر روز جنازے اٹھا رہے ہیں۔ اللہ نے چاہا تو اب وہ وقت دور نہیں جب کشمیری اپنی آزادی کا سورج طلوع ہوتا دیکھینگے، فتح ہمیشہ حق کی ہی ہوتی ہے چاہے اس میں سر تن سے جدا کروانا پڑے یا پھر کرنا پڑے۔