تحریر: سید مبارک علی شمسی کربلا ایک چراغ ہے۔ جسے حضرت امام حسین نے اپنے خون سے روشن کیا، اور اسی سے اسلام روشن ہے۔ کربلا اسلام اور انسانیت کے لیئے عظیم قربانی اور گراں قدر خدمات کے تسلسل میں اسلامی اقدار کی ایک منور مثال پیش کرتی ہے۔ حضرت امام حسین ان کے اہل بیت اور اصحاب علیہم السلام نے شہادت کی جو مثالیں پیش کی ہیں وہ عقو لِ انسانی کو بالیدگی اور قلوب انسانی کو ایسی اعلیٰ دارفع اقدار فراہم کرتی رہیں گی۔ جو انسان کو انسانیت کے اس بلند قربتے پر فائز کرتی ہیں۔ جسکی اللہ تعالیٰ ایک سچے انسان سے توقع رکھتا ہے۔ اسلام ایک دائمی تحریک اور دائمی انقلاب کا نام ہے۔ اس لیئے وہ مسلسل قربانیاں پیش کرتا رہتا ہے۔
اس نے اپنی ابتداء سے کامیابی کی منزل تک پہنچنے کے لیئے جاہلیت کی قوتوں اور اقدار کے مقابلے میں شہداء پیش کیئے اور تکمیل دین کے بعد تحریف اور تخریب کی قوتوں کے مقابل اپنی مذکورہ کامیابی کی حفاظت کرنے کے لیئے بھی مسلسل کامیابیاں پیش کیں۔ ہر انقلاب کے مقابلے میں اس انقلاب کی اقدار اور اس کے مقاصد کی مخالف ابھرتی رہی جس کا ہدف یہ تھا کہ وہ اسے اور اس کے مستقبل کو تہس نہس کر دیے، یہیں سے انقلا ب دشمنی کے خلاف شہادت کی عظمت ابھر کر سامنے آتی ہے۔ کیونکہ یہ ان فاتحین کی شہادت ہے جو فتح اور نصرت کے اعزاز کے ایسر نہیں بنے بلکہ فتح پالینے کے بعد بھی اپنے موقف پر ڈٹے رہے تا کہ وہ شہادت جیسی عظیم نعمت سے سرفراز ہو سکیں۔ حضرت امام حسین اسی فاتح گھرانے سے تعلق رکھتے تھے آپ فتح کے اعزازات سے فائدہ اٹھاتے ہوئے اسلامی معاشرے میں پر آسائش زندگی بسر کر سکتے تھے۔ جسے مسلمانوں کی اکثریت شاید قبول کر لیتی ، کیونکہ عربوں کی تاریخ میں جاہ و حشمت کی بہت قدر کی جاتی تھی، علمیت کے مقابلے میں فتوحات کرنے والے کو باعظمت تسلیم کرتے تھے۔ یہی وجہ ہے کہ تاریخ اسلام میں ان حکمرانوں اور جرنیلوں کی بہت تعریف و توصیف کی گئی ہے، جنہوں نے فتوحات کیں خواہ انکی جنگیں اسلام ہی کی روح کے منافی ہی کیوں نہ ہوں۔ لیکن حضرت امام حسین نے دیکھا کہ اسلام دشمن قوتیں اسلام ہی کے بھیس میں پروان چڑھ رہی ہیں۔ اسلام فکری جمود کا شکار ہو چکا ہیاور جیسا کہ رسول اکرم ۖ نے مسلمانوںکو متنبہ کیا تھا کہ اسلامی خلافت، قیصریت ، کسرائیت اور جابرانہ شہنشائیت میں تبدیل ہو گئی ہے تو حضرت امام حسین نے اس شازش اور ظلم کی تلوار کو صبر کی ڈھال پر پاش پاش کر دیا۔
معرکہ کربلا دراصل دو تربیتوں کا نچوڑ نظر آتا ہے۔ ایک طرف منافقانہ طرز فکر کی حامل اسلام دشمن خواتین جو سادہ لوح مسلمانوں کے ایمان پر ڈالنے کے لیئے سرگرام تھیں تو دوسری طرف خالص اسلامی اور ایمانی قوت جو اسلام کی بقاء کے لیئے اپنا تن، من،دھن قربان کرنے کے لیے کمر بستہ تھی۔ واقعہ کربلا کی وجوہات جو بھی ہو ں مگر یہ بات طے ہے کہ قربانی حضرت امام حسین خالصتاََ اسلام کی ڈگمگاتی نائو کو سہارا دینے کے لیئے تھی۔ 61 ہجری10 محرم الحرام کو میدان کربلا میں جام شہادت نوش کرنے والے پیا سے اماِم عالی مقام حضرت امام حسین سارا زمانہ سلام کی لاج رکھ لی۔ اماِم عالی مقام کی شہادت ہر مذہب ، عقیدہ اور فرقے کی زنجیروں سے آزاد ہو کر حق پر مر مٹنے کا اور امن کا پیغام دیتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ غیر مسلم بھی سیدنا حسین ابِن علی کے اس مقدس مشن کو سراہتے ہیں اور اپنا نذرانہ عقیدت تا حشر پیش کرتے رہیں گے۔
Muharram ul Haram
سردار کرتا ِ سنگھ ایڈووکیٹ ہائی کورٹ پٹیالہ لکھتے ہیں کہ ” اگر امام حسین کو حکومت ملتی تو انکی حکومت زمین پر آسامنی حکومت ہوتی تاہم مرنے کے بعد بھی وہ ایک ایسی حکومت کر رہے ہیں۔ جو کوئی فانی حکمران نہیں کر سکتا۔ امام حسین لازوال تخت و تاج کے مالک ہیں وہ ہمارے عرفانی بادشاہ ہیں اور انہوں نے فطرت انسانی کو غیر محدود وسعت عطا کی ہے۔ کنور مہندر سنگھ بیدی سحر امام حسین سے بھر پور عقیدت کااظہار کچھ یوں کرتے ہیں اس کا ایک بند ملاحظہ کیجئے۔
ہم کسی دین کے ہوں صاحب کردار تو ہیں ہم ثناء خوانِ شہرِ حیدر کرار تو ہیں نام لیوا ہیں محمد ۖ کے پرستار تو ہیں یعنی مجبور پئے احمد ۖ مختار تو ہیں عشق ہو جائے کسی سے کوئی چارہ تو نہیں صرف مسلم کا محمد ۖپہ اجارہ تو نہیں ڈاکٹر ستنام سنگھ خمار کہتے ہیں کہ خمار اپنے مسائل کا حل ہے کرب و بلا غمِ حسین پہ ہم انحصار کرتے ہیں۔ سنت درشن سنگھ کو سانحہ کربلا سے جو حوصلہ بھی ملتا ہے اور سہار ابھی اور وہ بے ساختہ بول ہیں کہ حسین حوصلہ انقلاب دیتا ہے حسین شمع نہیں آفتاب دیتا ہے شمشیر سنگھ شیر نے امام عالی مقام کو اپنا محسن تسلیم کیا ہے جن کے احسانوں سے انکی گردن خمیدہ ہے اب ایک اور احسان آرزو رکھتے ہیں اور امام علی مقام سے التجا کرتے ہیں۔ میری بخشش کا سامان آپ کے ہاتھ ہے وہ وہ مجھے عطا کریں تاکہ دونوں جہانوں میں خوش و خرم رہوں لکھتے ہیں کہ میرے مولا اک احسان کرتے جائیئے میری بخشش کا ذرا سامان کرتے جائیئے کرشن گوپال امام عالی مقام سے عقیدت کا اظہار کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ۔ غیر مسلم بھی ہیں شریک ِ غم مسلمانوں کے ساتھ آج ہمدردی ہے انسانوں کو انسانوں کے ساتھ رام پرکاش ساحر کہتے ہیں کہ۔ ہے حق کو صادقت میرا مسلک ساحر ہندوہوں مگر دشمنِ شبیر نہیں پرتپال سنگھ بیتاب لکھتے ہیں کہ اسلام زندہ کر کے جو رخصت ہوئے شہید زندہ ہے ان کا نام وفا کی کتاب میں آزاد گورداسپوری کہتے ہیں کہ کس عزم و اہتمام سے طے آپ نے کیا کانٹوں سے تھا بھرا ہوا رستہ حسین کا گوپی ناتھ امن لکھنوی امام عالی مقام سے عقیدت کا اظہار کرتے ہیں کہ۔ کافر کہو، مشرک کہو، جو کچھ کہہ دو ہندوہوں مگر دشمنِ شبیر نہیں پنڈت ایشری پرشاد سینہ تان کر نذرانہ عقیدت پیش کرتے ہیں کہ رکھتے ہیں جو شبیر سے کاوش پنڈت ایسے تو مسلمانوںسے ہندو اچھے جے سنگھ لکھتے ہیں کہ جے سنگھ پناہ مانگے گی مجھ سے نرک کی آگ میں ہندو ہوں مگر ہوں شیدا حسین کا
آخر میں دعا گو ہوں کہ خالقِ اکبر ہمیں عاشورہ محرم باہمی بھائی چارے اور امن وامان سے گزارنے کی توفیق عطا کرے اور شہادت حسین کو ہمارے قلوب میں اور مقصد ِ شہادت کو ہمارے اذھان میں رکھے(آمین)۔