کربلا کی جنگ دو تہذیبوں کی جنگ، دو نظام کی تفریق، دو فکر کا ٹکرائو، حق و باطل کا مقابلہ تھی

Karbala

Karbala

کراچی: جمعیت علماء پاکستان کے مرکزی سیکرٹری جنرل اور مرکزی جماعت اہل سنت کے نگران اعلیٰ شاہ محمد اویس نورانی صدیقی نے کہا ہے کہ کربلا کے میدان میں خاندان اہل بیت نے جس مصائب کا مقابلہ کیا اور جس بے جگری سے داعی اجل کو لبیک کہا اور دین کی سربلندی کے لئے اپنا سب کچھ لٹا دیا وہ بلاشبہ ایثار و قربانی کی وہ اعلی ترین مثال ہے، خاندان اہل بیت کے رہبر و ملاح امام عالی مقام امام حسین رضی اللہ عنہ کی ذات استقامت تھی کہ جنہیں حضور علیہ السلام کی فکر انگیز تربیت نے پہلے ہی بتادیا تھا کہ ایک وقت ایسا آئے گا کہ دین اسلام کی بقا و سلامتی خاندان اہل بیت اور خود امام عالی مقام کے کندھوں پر ہوگی اور اس وقت اپنا سب کچھ راہ خدا میں قربان کر کے دین اسلام کو بچانا ہوگا۔

امام عالی مقام نے واقعات و معاملات کا ادراک ہوتے ہوئے بھی کبھی اس بات پر رنج و افسردگی کا اظہار نہیں کیا بلکہ ہر لمحہ رب عزوجل کی شان میںحمد و ثناء کرتے رہے، مصائب پر صبر اور نعمتوں پر شکر کیا، امام عالی مقام نے اس دور میں اپنے پیغام میں یہ واضح کردیا کہ میں اپنے ناناحضور علیہ السلام کے منصب پر کسی فاسق و فاجر، لادین، لبرل، سیکولر، فحاشی و عریانی کے گرویدہ، زانی و شرابی، برکردار، چور، لٹیرے اور بدبخت کفر کے ساتھی کو نہیں بیٹھنے دے سکتا۔

انہیں نے یہ بھی واضح کردیا کہ حق و باطل کی جنگ میں تعداد و سامان حرب نہیں دیکھا جاتا، بلکہ یہ جنگیں استقامت وتقوی کی بنیاد پر لڑی جاتی ہیں، انہوں نے اس بات کی بھی وضاحت کردی بظاہر جو شکست معلوم ہو وہ ایسی جیت ہوتی ہے کہ جیتنے والوں کو قیامت تک کے لئے ذلیل و رسوا کردیتی ہے،آج ساری دنیا میں امام حسین کا نام اور کردار زندہ ہے اور یزید بدبخت مردود ہے،خاندان اہل بیت نے کربلا میں یہ پیغام دیا کہ مصائب چاہے کتنے بھی سخت ہوں، بندہ مومن کو ہر صورت صبر و استقامت اور شکر کے دامن کو نہیں چھوڑناچاہیے، ایثار و قربانی کی اس سے بڑی مثال اور کیا ہوگی کہ خاندان اہل بیت نے ایک کے بعد ایک تمام کے تمام فرد قربان کردیے گئے اور زبان پر اف تک نہ لائے، سالانہ ختم نبوتۖ کانفرنس میں شرکت کے لئے پاکپتن روانگی کے موقع پر خادمین جمعیت علماء پاکستان سے ملاقات میںپیغام کربلا کا ذکر کرتے ہوئے جمعیت علماء پاکستان کے مرکزی سیکرٹری جنرل اور مرکزی جماعت اہل سنت کے نگران اعلیٰ شاہ محمد اویس نورانی صدیقی نے کہا کہ کربلا کی جنگ دو تہذیبوںکی جنگ، دو نظام کی تفریق، دو فکر کا ٹکرائو، حق و باطل کا مقابلہ تھی، درس کربلا یہ ہے کہ دنیا میں کہیں بھی ظلم ہو تو اس کے سامنے حق کی آواز بلند کرتے ہوئے ڈٹ جائو۔

پیغام امام عالی مقام یہ ہے کہ منصب خلافت و حکومت جس پر نائب رسول اور وقت کے خلیفہ کا حق ہے اس منصب کو کبھی بھی فاسق وفاجر، باطل و بدعقیدہ، شرابی و زانی، بدبخت اور ظالم کے حوالے نہ کرو، بلکہ صالح اور متقی قیادت پر اکتفا کرو اورفلسفہ شہادت یہ ہے کہ دین کی سربلندی کے لئے مال و دولت،رشتے، اولاد اور سب سے بڑھ کر اپنی جان بھی قربان کرنی پڑ ے تو دریغ نہ کرو،شاہ محمد اویس نورانی صدیقی نے کہا کہ پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس میں شرکت نہ کرنا بیوقوفی سے کم نہیں ہے، ملکی تاریخ میں پہلی بار کشمیر ایجنڈے پر مشترکہ اجلاس بلایا جارہا ہے،کسی شرکت نہ کرنا بھارتی مفاد میں ہے، لیکن پاکستان مخالف نعرے لگانے والی جماعت کو کشمیر کے مشترکہ اجلاس سے دور رکھا جائے، ان شریک ہونا کشمیریوں کے خون اور بانیان پاکستان کی قربانیوں سے غداری ہوگی، جمعیت علماء پاکستان کی مرکزی و صوبائی قیادت اور انجمن طلبہ اسلام کے مرکزی صدر محمد زبیر صدیقی ہزاروی پاکپتن میں مختلف تنظیمی پروگرامات میں شرکت کرینگے۔