تحریر: مسز جمشید خاکوانی پاکستان اور بھارت کے درمیان ایک بار پھر لفظی جنگ عروج پر ہے اس کی بڑی وجہ بھارتی وزیر اعظم کے دورہ بنگلہ دیش کے دوران وہ بیان بھی ہے جس میں انہوں نے اعتراف کیا کہ ”بنگلہ دیش ” بنانے میں بھارتی خواہش شامل تھی۔ نریندر مودی نے بنگلہ دیش میں”لبریشن وار آنر ” ایوارڈ وصول کرتے ہوئے فخریہ کہا کہ ہماری افواج بنگلہ دیش کی آزادی کے لیئے مکتی باہنی سے مل کر لڑیں اور بنگلہ دیش بنانے کے خواب کو پایہ تکمیل تک پہنچایا ۔۔۔۔یہ ایک ایسا خواب تھا جس پر وقت نے گرد ڈال دی تھی لیکن مودی نے ایک بار پھر پاکستانیوں کے زخم ہرے کر دیئے۔
پاکستانی میڈیا بھی اپنا احتجاج ریکارڈ کرائے بغیر نہ رہ سکا۔یہ وہ الزام ہے جو ہمیشہ پاک فوج پہ لگتا رہا کہ وہ بنگلہ دیش بنانے کے زمہ دار تھے انکی عیاشیوں بدمعاشیوں نے یہ دن دکھایا۔ہر محاذ پر داد شجاعت دینے والے ،اپنی جانوں کی قربانیاں دینے والے ہر آفت ہر مصیبت میں اپنی عوام کے ساتھ کھڑے ہونے والے جب مجرم ٹھیرائے جاتے ہیں تو سیاستدانوں کے دل کانپیں نہ کانپیں آسمان ضرور کانپ جاتا ہے ان مائوں کے دل روتے ہیں جو ان جوانوں کو محاذ پر بھیجتی ہیں کہ جائو بیٹا وطن کی حفاظت کرو۔اس وطن کے سجیلے جوانوں کے منہ پر سیاست نے سیاہی مل دی۔ہمارا بچپن یہی سوچتے گذرا کہ پاک فوج نے ایسا کیوں کیا؟اور دوسرا زخم کارگل نے دیا لوگ تقسیم ہو گئے اصل بات کھلتی ہی نہ تھی ،ایک دو جنریلوں کی لکھی کتابوں نے تو گویا مہر لگا دی کہ یہ مشرف کی نا عاقبت اندیشی کے سوا کچھ نہ تھا۔اور بھٹو کی طرح میاں صاحب اس بار ہیرو بن گئے کہ انہوں نے پاکستان کی ڈوبتی کشتی بچا لی ۔ان جھوٹی سچی کہانیوں نے پاک فوج کی عزت کو بہت نقصان دیا لیکن دل مانتا ہی نہ تھا ۔لیکن آہستہ آہستہ سچ سامنے آنے لگا۔کہ کارگل تو ہماری جیت تھا بہادری اور شجاعت کی انمٹ داستان جس کو جان بوجھ کر یا اپنی کم عقلی اور بزدلی کے باعث ہار میں بدلا گیایہ وہ سچ تھا جس کا اعتراف دشمن بھی کر رہا تھا ۔کتنے جوان مارے گئے لیکن اس کے باوجود پاک فوج کے جوانوں میں مشرف کی عزت اور محبت کیوں ہے ؟مجھے اپنے ذہن میں اٹھنے والے اس سوال کا جواب کبھی نہ ملا۔
Pakistani Media
ملا تو کہاں ملا؟ایک عام سویلین سے ۔کیونکہ پاک فوج اپنے اوپر الزام کا بوجھ تو اٹھا لیتی ہے مگر کبھی اپنی صفائی پیش نہیں کرتی۔۔۔۔۔ میں اس پر اب تک درجنوں کالم پڑھ چکی ہوں مشرف صاحب نے اسے ایک ملٹری سکسیس قرار دیا تھا اپنی کتاب میں کارگل پہ ایک چیپٹر لکھا ۔لیکن جو تجزیہ مسٹر محمد اطہر شامی نے کیا ہے اس نے ذہنوں میں اٹھنے والے ہر سوال کا جواب دے دیا ہے (١) معرکہ کارگل کیا تھا؟ محض ایک مہم جوئی،حماقت،یا پوری تیاری سے کیا گیا ملٹری پریشن؟میاں صاحب اور مشرف کے درمیان اس کشمکش کو میں کبھی صحیح طور پر جان نہ سکی ،اور شائد عوام کی ایک کثیر تعداد یہ سچ جاننے سے محروم رہی ۔میڈیا نے سارا منظر ہی دھندلا دیا لیکن قدرت کا اپنا نظام ہے کہ سچائی اپنی جگہ پر قائم رہتی ہے اور ایک دن آتا ہے کہ ہوا دینے والے پتے ہی گواہ بن جاتے ہیں۔
مسٹر شامی جو کہ ٹیکسٹائل مارکیٹنگ کے شعبے سے وابستہ ہیں ان کا تعلق پنجاب فیصل آباد کے ایک گھرانے سے ہے خود میاں صاحب کے متوالوں میں سے تھے بلکہ ان کا سارا خاندان۔۔۔وہ لکھتے ہیں 1999 میں کارگل کی جنگ میں پہلی مرتبہ میرے ذہن میں نوازشریف کی اہلیت بارے سوال پیدا ہوااور میں سوچنے پر مجبور ہوا جن کے نام کے ہم نعرے لگاتے ہیں اور جن کے پیچھے جھنڈے اٹھائے پھرتے ہیں ان کی اپنی قابلیت کیا ہے؟کارگل کی جنگ وہ پہلا واقعہ تھا جس نے نواز شریف کی اہلیت پر سوالیہ نشان لگا دیا۔اس نقطہ کو صحیح طور پر جاننے کے لیئے کارگل کی جنگ کا پس منظر اور اس جنگ کی دیگر تفصیلات کو جاننا ضروری ہے ۔کارگل سیکٹر لائن آف کنٹرول کا وہ علاقہ ہے جہاں پر پاکستانی اور انڈین کشمیر کی سرحد کی باقائدہ حدبندی طے شدہ نہیں ہے کسی بھی پہاڑی چوٹی،فوجی چوکی یا علاقے ہر ملکیت کا حق اسی فریق کا ہوتا ہے جس کا قبضہ ہو جائے ۔اسی اصول کے تحت ہندوستان کی افواج نے 1983 میں سیاچن پر قبضہ کیا تھا اور پاکستان کے پاس سیاچن کا جتنا علاقہ اب ہے وہ پاکستانی افواج نے جنگ لڑ کر حاصل کیا تھایعنی ہندوستان سے واپس لے لیا تھا۔کارگل سیکٹر میں ٹائیگر ہل نام کی انڈین آرمی پوسٹ انتہائی سٹریجک اہمیت کی حامل ہے اس سیکٹر کے بارے میں پاکستان کی خفیہ ایجنسیز کو ایک اہم خبر یہ ملی کہ کہ انتہائی سخت سردی میں انڈین فوجیں ٹائیگر ہل اور کارگل سیکٹر کی دوسری چوکیوں سے واپس چلی جاتی ہیں اور سخت سردی کا موسم ختم ہونے کے بعد واپس آ جاتے ہیں۔
پاکستان آرمی نے انڈین آرمی کی اس کمزوری سے فائدہ اٹھانے کے لیئے کارگل کی جنگ سے تین سال پہلے اس ایریے پر قبضہ کرنے کا منصوبہ بنایا ۔پولینڈ کے بنے ہوئے بہت مخصوص قسم کے بوٹ اور لباس خریدے گئے جو کہ اس علاقے کے انتہا درجے کے ٹھنڈے موسم کا مقابلہ کر سکیں ۔کم و بیش تین سال تک اس آپریشن کی تیاری اور مشقیں کی گئیں (نواز شریف سوتے رہے)اعلی سول قیادت کو یہ سارا منصوبہ بتا کر منظوری لی گئی کہ آپریشن کی کامیابی کی صورت میں ہم انڈین سے اپنا سیاچن کا واقعہ واپس لینے کی پوزیشن میں آ جائیں گے بلکہ انڈیا کو کشمیر کے مسلے پر مجبور کرنے کی پوزیشن میں بھی ہونگے۔
Pakistan Army
کیونکہ ہندوستان کو کشمیر سے ملانے والا واحد زمینی راستہ سری نگر روڈ ٹائیگر ہل کے نیچے سے گذرتا ہے اس ساری منصوبہ بندی کے مطابق پاکستان آرمی نے ٹائیگر ہل اور کارگل سیکٹر کی تمام اہم چوکیوں پر کامیابی سے قبضہ کر لیا۔جب انتہائی سردی کا موسم ختم ہواانڈین آرمی واپس آئی تو دیکھا تمام چوکیوں پر پاکستان کا قبضہ ہے ۔انہوں نے قبضہ واپس لینے کی ناکام کوشش کی (اس لیئے تابوتوں کے لیئے لکڑی ختم ہو گئی تھی )لیکن انڈین آرمی بری طرح ناکام ہوئی اور کارگل سیکٹر میں لائن آف کنٹرول پر دونوں طرف سے میجر ملٹری آپریشن شروع ہو گیا اس ساری جنگ میں پاکستان آرمی بہت بہتر اور برتر پوزیشن میں تھی وہ انڈین آرمی کو گردن سے پکڑ چکی تھی (اس لیئے انڈیا کو نہ مشرف بھولتا ہے نہ درد) دوسری طرف یہ ساری صورت حال پاکستان کی سیاسی قیادت کی جرات اور دانشمندی کا بھی بہت بڑا امتحان تھی ۔کیونکہ جس وقت ہندوستان پہ یہ انکشاف ہوا کارگل سیکٹر کی تمام اہم چوکیوں پر پاکستان کا قبضہ ہو چکا ہے اس وقت پاکستان اور انڈیا کے مابین مذاکرات کا عمل شروع ہو چکا تھا جناب اٹل بہاری واجپائی نے ہاٹ لائن پر فون کر کے نواز شریف سے شدید احتجاج کیا کہ جب مذکرات شروع ہو چکے ہیں تو آپکی فوج نے قبضہ کیوں کیا؟ اس بات کا دانشمندانہ اور سفارتی جواب یہ بنتا تھا کہ جناب ہماری فوج نے کارگل پر قبضہ تین ماہ پہلے کیا تھا جب کہ ہمارے مذاکرات ایک ہفتہ پہلے شروع ہوئے ہیں ۔اور کارگل سیکٹر اس علاقے میں واقع ہے جس کے بارے میںیہ اصول پایا جاتا ہے جس کا قبضہ اسی کا علاقہ۔۔۔۔اسی اصول کے تحت آپکی آرمی نے سیاچن پر قبضہ کیا تھا اب چونکہ ہمارے مذاکرات شروع ہو چکے ہیں تو ہم سیاچن ،کارگل ، کشمیر سمیت تمام تنازعات ٹیبل پر بیٹھ کر مذاکرات کے زریعے حل کر لیتے ہیں۔
نواز شریف نے انڈین قیادت کو جو جواب دیا اس نے ثابت کر دیا کہ نواز شریف ایک بزدل انسان ہی نہیں ان کے اندر اخلاقی جرات کا بھی فقدان ہے میاں صاحب نے گڑبڑا کر کچھ اس طرح جواب دیا (جیسے بڑے بھائی سے شیشے کا گلاس ٹوٹ جائے تو وہ پٹائی کے ڈر سے گھبرا کر کہے گلاس مجھ سے نہیں چھوٹے بھائی سے ٹوٹا تھا )میاں صاحب نے گھبرا کر کہا ٹائیگر ہل پر ہماری آرمی نہیں بلکہ وہ تو کشمیری مجاھدین ہیں میاں صاحب کے وقتی طور پر بولے گئے اس جھوٹ کی وجہ سے سفارتی طور پر پاکستان اس مسلیء پر اپنے دفاع کے حق سے محروم ہو گیا اور سینکڑوں جانوں کی قربانی دے کر میدان میں جیتی ہوئی جنگ میاں صاحب وائٹ ہائوس میں کلنٹن کے سامنے ٹیبل پر بیٹھ کر ہار کر واپس آ گئے(اس لیئے اب ہر بات پرچی پر لکھ کر جاتے ہیں)امریکہ سے واپس آکر میاں صاحب نے ٹی وی پر ایک تقریر کی جو آئیں بائیں شائیں پر مشتمل تھی جس ان کی شخصیت میں چھپی خامیوں کو مزید آشکار کر دیا ۔انکی تقریر کا مفہوم کچھ یوں تھا کہ کارگل کی جنگ کے نتیجے میں جنوبی ایشیا پر جنگ کے بادل منڈلانے لگے تھے ایٹمی میزائلوں کا رخ ہماری جانب کر دیا گیا تھا ہماری فوج کا کارگل پہ قبضے کا مقصد مسلہ کشمیر کو ہائی لائٹ کرنا تھا جو کہ حاصل ہو گیا ہے ہم کارگل پہ قبضہ کر کے کشمیر نہیں لے سکتے تھے کیونکہ کارگل سے کوئی سڑک کشمیر نہیں جاتی اب امریکہ کے صدر بل کلنٹن نے خود مجھ سے وعدہ کیا ہے کہ وہ ذاتی دلچسپی لے کر مسلہ کشمیر حل کروائیں گے اپنے کانوں سے سنی اس تقریر پر مجھے انتہائی افسوس ہوا کہ میاں صاحب نے جتنے خوفزدہ انداز میں یہ بات کہی ایٹمی میزائلوں کا رخ ہماری طرف کر دیا گیا تھا میرے خیال میں یہ جملہ دنیائے اسلام کی پہلی ایٹمی طاقت کے حامل ملک کے سربراہ کے شایان شان نہیں تھا یہ صحیح ہے کہ اس وقت پاکستان ایٹمی جنگ کا متحمل نہیں ہو سکتا تھا ،لیکن بعین اسی طرح بھارت بھی اس جنگ کا متحمل نہیں تھا۔
میدان جنگ میں دونوں ممالک کی افواج کے ساتھ ساتھ یہ دونوں ممالک کی قیادت کی بھی اعصاب کی جنگ تھی بل کلنٹن نے واجپائی اور نواز شریف دونوں کو واشنگٹن طلب کیا تھا لیکن واجپائی نے یہ کہہ کر کہ میرا ملک حالت جنگ میں ہے میں نہیں آ سکتا ) انکار کر دیا لیکن میاں صاحب بھاگ کر واشنگٹن پہنچ گئے اور کلنٹن کی تمام شرائط مان کر واپس آگئے ٹی وی پر کی گئی اس تقریر میں میاں صاحب نے ایک جھوٹ یہ بھی بولا کہ کارگل سے کوئی سڑک کشمیر نہیں جاتی حالانکہ حقیقت یہ تھی کہ انڈیا سے کشمیر جانے والا واحد زمینی راستہ سری نگر روڈ ٹائیگر ہل کی اس چوکی کے نیچے سے اس طرح گذرتی تھی جس پر پاکستانی فوج کا قبضہ تھا کہ اگر اوپر سے صرف پتھر گرائے جاتے تو نیچے سے گزرنے والی ہرگاڑی تباہ ہو جاتی۔اس جنگ کے دوران میان صاحب کا ردعمل ،بوکھلاہت ،کلنٹن سے مرعوبیت اور پاکستان واپس آ کر طرح طرح کے جھوٹ بولنا یہ سارے ایسے عوامل تھے جنھوں نے میاں صاحب کی قیادت کی صلاحیت مشکوک ہو گئی اور وہ میری نظر میں حمایت سے محروم ہو گئے۔قارئین !میاں صاحب کا جان بخشی کروا کے جدہ جانا یونہی نہیں تھا دس سالہ جلا وطنی مشرف کا ظلم نہیں میاں صاحب کا وہ خوف اس کی وجہ تھا کہ کہیں وہ اصلی کھاتہ کھل نہ جائے ۔اور جونہی امریکہ سے گرین سگنل ملا اور زرداری سے ہتھ جوڑی ہوئی سازشوں کی راہیں ہموار ہوئیں یہ جلاوطن تازہ دم ہو کر نئے جال لیکر ملک کی بربادی کے لیئے اکھٹے ہو گئے اب جانے کب ضرب عضب ان پر ٹوٹتا ہے اللہ ایسی قیادت سے بچائے آمین۔