چیف جسٹس میاں ثاقب نثار کی ریٹائرمنٹ سے قبل فوجی عدالتوں کی توسیع و جوڈیشل ایکٹوازم کے اختیارات کے حوالے سے ایک بڑی بحث کا آغاز ہوچکا ہے۔ دو دن بعد (17جنوری) کو چیف جسٹس آف پاکستان اپنی مدت پوری کرلیں گے۔ مملکت کے عدالتی نظام کے معاملے پر کھلے سیمینار، سمپوزم و کنونشن میں آزادانہ اظہار رائے کا بہت کم استعمال کیا گیا ہے۔ گو عدلیہ کی جانب سے واضح و صاف کہا جاچکا ہے کہ اخلاقی و قانونی حدود میں رہتے ہوئے عدلیہ کے فیصلوں پر بھی تعمیری تنقید کی جاسکتی ہے۔ مگر بیانات و تحاریر میں اگر کسی معزز جج کا نام لے کر ان کی ذات کو نشانہ بناتے ہوئے تضحیک و توہین کی جائے گی تو یہ یقینی طور پر احسن قدم قرار نہیں دیا جاسکتا۔ گو ماضی کے کئی ایسے فیصلے اب تاریخ کا حصہ بن چکے جو مخصوص مفادات کے تحت کیے گئے اور ان فیصلوں سے عوام کا اعتماد عدلیہ پر کم ہوا۔
دو اہم معاملات ہیں جو اس وقت عالمی توجہ کا مرکز بنے ہوئے ہیں اور ملک کی سیاسی جماعتوں سمیت عوام نے بھی ایک مائنڈ سیٹ بنایا ہوا ہے اور اس دائرے کے تحت ہی ان کا نقطہ? نظر گھوم رہا ہے۔ ایک بار پھر ایک انتہائی اہم معاملے نے عدالتی نظام میں موجود سقم پر اختلاف رائے کو موضوع بحث بنایا ہے۔ ”رجسٹرار آفس سپریم کورٹ نے پشاور میں بینچ تبدیلی کے معاملے پر جسٹس منصور علی شاہ کا اختلافی نوٹ جاری کردیا ہے، جس میں جسٹس منصور علی شاہ کا کہنا ہے کہ تبدیل شدہ بینچ میں بیٹھنے کی غلطی تسلیم کرتا ہوں۔ غلطی کا احساس ہونے پر بینچ تبدیل کرنے کے حکم پر دستخط نہیں کیے۔ اختلافی نوٹ میں کہا گیا کہ جج سے اختلاف کی بنیاد پر بینچ تبدیل کرنا آئین اور عدلیہ کی آزادی کے خلاف ہے۔ عدالتی نظام میں ہر جج غیر جانبدار، ایماندار ہونے کے ساتھ اپنی رائے دینے میں آزاد ہے۔ کسی جج کے انکار کے بغیر بینچ تبدیل کرنا جج کی آزاد رائے کا گلا گھونٹنا ہے۔ اختلاف کو دبانا یا دفن کرنا آزاد انصاف کے نظام کی بنیادیں ہلادے گا۔جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ ایسے اقدام سے لوگوں کا عدلیہ پر اعتماد مجروع ہوگا۔ لوگوں کا اعتماد نظام انصاف کا اہم ترین اثاثہ ہے”۔
دوسرا اہم معاملہ فوجی عدالتوں کی توسیع کاہے۔ عدالتوں میں اہم مقدمات بھیجے جانے اور فوجی عدالتوں کے قیام پر سیاسی جماعتوں نے ہی آئین میں ترمیم کرکے فوجی عدالتوں کے قیام اور توسیع کی منظوری دی تھی۔ فوجی عدالتوں کی مزید توسیع کے لیے حکومت نے اپوزیشن سے مشاورت کی خاطر دو رکنی کمیٹی قائم کردی ہے۔ فوجی عدالتوں کی منظوری ایک ایسی آئینی مجبوری تھی جس میں خطرناک دہشت گردوں کے خلاف کریمنل جسٹس سسٹم میں فیصلے کرنا ناممکن ہوتا جارہا تھا۔ مدعی، گواہان اور پراسیکیوٹر کو تحفظ نہ ملنے کی وجہ سے ماتحت عدالتیں بڑے فیصلے کرنے میں جھجک کا مظاہرہ کرتیں تو دوسری جانب پولیس کے تفتیشی نظام کی کمزوری و سقم کی وجہ سے ایسے کئی ملزمان اعلیٰ عدالتوں نے اپیل پر رہا کیے، جن کے خلاف استغاثہ ٹھوس شواہد پیش کرنے میں ناکام رہتے۔
قانونی تفتیشی سقم کا فائدہ اٹھاکر ایسے کئی دہشت گرد بَری ہوئے۔ قانون نافذ کرنے والے ادارے نے پولیس کو کئی خطرناک ملزمان حوالے کیے لیکن ان کے خلاف ٹھوس کارروائی کا نہ ہونا عدالتی نظام میں کئی لاکھ کیسوں کے زیر التوا ہونے کی وجہ بنتا۔ کریمنل نظام انصاف کے سقم کی وجہ سے فائدہ اٹھاتے۔ معاشرے میں عدل و انصاف کے قیام کے لیے وکلا برادری کا اہم کردار ہے۔ اگر وکلاء برادری چاہے تو معاشرے سے کئی سنگین جرائم کا خاتمہ ہوسکتا ہے۔ عدل و انصاف کی فراہمی میں وکلاء برادری کے کردار کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔ عدالتی نظام و تفتیشی مراحل میں وکلاء کے کردار سے سب بخوبی آگاہ ہیں، ضمیر و سچائی کے میزان پر وکلاء حق و سچ کا ساتھ دیں تو کئی سنگین مسائل عدالتوں کی دہلیز پر جانے سے قبل ہی ختم ہوسکتے ہیں۔
فوجی عدالتوں کے قیام کی ضرورت بھی اس لیے درپیش ہوئی کیونکہ موجودہ عدالتی نظام میں مقدمات سست روی کا شکار اور کئی معزز جج صاحبان کو جانی تحفظات کا سامنا رہتا ہے۔ پاکستان میں اس وقت انصاف کی فراہمی کے لیے کئی متوازی عدالتی نظام چل رہے ہیں۔ سول، دیوانی، فوجداری مقدمات، کرپشن، احتساب، انسداد دہشت گردی و منشیات کی خصوصی عدالتیں سمیت جرگہ اور پنچایت سسٹم بھی اب عدالتی نظام کا حصہ ہیں۔ پنجاب میں پنچایتی نظام کو عدالتی تحفظ بھی حاصل ہے اور پنجاب میں کئی فیملی و سول معاملات پنچایتی نظام کے تحت فوری حل کیے جارہے ہیں، اسی طرح خیبر پختونخوا کے کئی اضلاع میں روایتی جرگہ نظام کے علاوہ شرعی اور ملکی قوانین کے تحت بھی دو متوازی نظام موجود ہیں، کئی اضلاع میں دوہرا عدالتی نظام قائم ہے، جہاں برسہا برس چلنے والی عدالتیں بھی ہیں اور شرعی نظام کے تحت فیصلے کے اختیارات بھی ہیں۔ سندھ کے اندرونی علاقے و بلوچستان کے قبائلی علاقوں میں سیکڑوں برس سے روایتی عدالتی نظام چل رہا ہے۔
قصہ مختصر اس بات کو ہمیں تسلیم کرلینا چاہیے کہ اس وقت ہمارا عدالتی نظام و پولیس سسٹم و قوانین، انگریزوں کے دور کے بنے ہوئے ہیں۔ قیام پاکستان کے بعد بھی ہم انگریزوں کے دور غلامی میں بنائے نظام سے خود کو باہر نہیں نکال سکے ہیں۔ پارلیمنٹ میں جمہوری نظام کا تیسرے دور کا تسلسل تو موجود ہے لیکن عوامی نمائندے سول، فوجداری قوانین کو تبدیل نہیں کرسکے ہیں، پارلیمنٹ آئین ساز ادارہ اور جمہوری نظام کے تحت سپریم ادارہ ہے، لیکن آئین میں اب بھی ایسی کئی موشگافیاں ہیں کہ پارلیمنٹ کو بھی معطل کردیا جاتا ہے۔
عدالتی اصلاحاتی عمل سست روی و عدم توجہ کا شکار ہے۔ پارلیمنٹ عدالتی نظام میں اصلاحات کرکے فوری و سستے شفاف انصاف کے لیے قانون سازی کرسکتی ہے۔ لیکن اس کے لیے سب سے زیادہ ضروری ہے کہ پارلیمنٹ اپنا آئینی کردار ادا کرے۔ عوام کی مشکلات کا ادراک کرتے ہوئے آئین سازی کرے۔ فوجی عدالتوں کے قیام و اب توسیع پر سیاسی جماعتوں کو یقیناً تحفظات ہیں، لیکن اس سے قبل بھی شدید تحفظات کا اظہار کیا گیا، سینیٹرز رو پڑے، لیکن فوجی عدالتوں کے قیام کی منظوری دے دی گئی تھی۔ آج بھی ہمارا عدالتی نظام اتنا مضبوط و بے خوف نہیں کہ وہ بڑے فیصلے آئین وقانون کے مطابق کرسکے۔ فوجی عدالتوں کی توسیع کا فیصلہ ہوجائے گا کیونکہ یہ وقت کی ضرورت ہے لیکن ہماری پارلیمنٹ جمہوری اداروں کو مضبوط و محفوظ کب کرے گی، اس پر بھی غور وفکر کریں۔ میڈیا میں سیاسی پوائنٹ اسکورنگ کے بجائے زمینی حقائق کو تسلیم کریں۔