کشمیر کے اشیو کو ایک طرف رکھ کر بھارت سے تجارت کرنے کے بارے عمران خان کی حکومت کے بارے میں میڈیا میں خبریں گرم ہیں۔ تو اس سلسلے میں عرض ہے کہ پاکستان کا نام نہاد دست امریکا کشمیر بارے اقوام متحدہ میں اپنا ویٹو پاور استعمال کر کے کشمیر کے مسئلہ میں رکاوٹیں ڈالتا رہا ہے۔ امریکا شروع دن سے ہمارا دوست نہیں بلکہ دوست نما دشمن رہا ہے۔اس کی واحد وجہ مسلمانوں کو پھر سر اُٹھنے سے روکنا ہے۔ پاکستان کا اسلامی ہونا اور اب تو ایٹمی قوت ہونا امریک کو قطعاً پسند نہیں۔امریکا ہماری حکومتوں پر دبائو دالتا رہا کہ پاکستان کے ازلی دشمن بھارت پاکستان سے چھ گناہ بڑا ہے ۔ پاکستان کو چھوٹا بن کراپنی پالیسیاں بنانی چاہیں۔ دوسری طرف پاکستان کی مجبوری تھی کہ آزادی کے بعد اسے کسی بھی طرف سے تحفظ چاہیے تھا۔روس سے بھی دوستی کی کوشش ہوئی تھی۔ مگر بلاآخر بصد مجبوری ہم امریکا کے قدموں میں گر پڑے۔بھارت نے ہمارے اثاثوں کی پہلی قسط کے بعد ہماری حق روک دیا تھا۔بھارت کہتا تھا پاکستان جلد ختم ہو جائے گا۔ وائس سرائے ہند لارڈ مونٹ بیٹن کی قائد اعظم کو دھمکی بھی تھی کہ اسے پاکستان اور بھارت کا مشترکا گورنر جرنل نہ مانا گیا تو پاکستان کے اثاثے روک دیے جائیں۔
قائد اعظم لارڈ مونٹ بیٹن کی اس بات کے مخالف تھے۔ بحر حال امریکی اسلحہ اور امداد کے لیے پاکستان نے امریکا سے دوستی کی تھی۔ روس کے خلاف پشاور کے بڈھ بیر کے ہوائی اڈے سے روس کی جاسوسی کے لیے یو ٹو امریکی جاسوسی طیارہ کی اُڑان بھی پاکستان سے ہوئی۔جس کی وجہ سے روس نے پاکستان توڑنے میں بھارت کی مدد کی تھی۔امریکا نے ٦٥ کی جنگ میںپاکستان فوج کے دفاحی نوعیت کے فاضل پرزے دینے بند کر دیے تھے۔ہنری کیسنگر امریکی وزیر خارجہ نے اپنی کتاب میں انکشاف کیا کہ پاکستان توڑنے میں امریکا کا بھی ہاتھ تھا۔ افغان جہاد میں بھی پاکستان نے روس کی مخالفت میں امریکا کا ساتھ دیا۔ روس کی تباہی کے بعد امریکا نے افغان مجائدین اور پاکستان سے ہاتھ کھینچ لیا تھا۔ بلکہ مجائدین کو دہشت گرد کہنے لگا۔ایٹمی دھماکوں میں بھارت پر نہیں ، پاکستان پر پابندیاں لگائی۔ بھارت کو نیوکلیئر سپلائی گروپ کی ممبر شپ کے لیے مہم چلائی۔ پاکستان کو اس سے دور رکھا۔ڈکٹیٹرمشرف سے کشمیر کے مسئلہ کا حل اور افغانستان پر بھارتی کردار نہ ہونے کے وعدے پر لاجسٹک مدد حاصل کی۔ مگر وعدے سے مکر گیا۔ آج بھارت کے افغانستان میں کردار کا حامی بن گیا۔ پاکستان کو ایک طرف رکھ کر بھارت سے دفاحی معاہدہ بھی کر لیا۔ امریکی کے پاکستان کے ساتھ دھوکوں کی لمبی داستان ہے۔ مگر پھر بھی ہماری حکومتیں امریکی ایجنڈے پر ہی چلتیں ہیں۔
پیپلز پارٹی کے دور میں بھارت کو موسٹ فیورٹ ملک بنانے کی فیصلہ ہوا۔ عوام نے شور مچا دیا تو اُس وقت کی وزیر خارجہ حنا ربانی کھر صاحبہ نے کہا تھا کہ موسٹ فیورٹ ملک نہیں صرف تجارت کی بات کی ہے۔ نواز شریف صاحب نے بھارت کے سامنے گھٹنے ٹیک دیے تھے۔اب حماد ااظہر وزیر خزانہ نے بھارت سے چینی اور کپاس درآمد کرنے کا بیان دیا تو عوام نے شدید مخالفت کی۔ وزیر خارجہ محمود قریشی صاحب کو بیان دینا پڑا کہ جب تک بھارت کشمیر بارے اپنے آئین کی دفعہ ٣٧٠ اور ٣٥ اے واپس نہیں لیتا اس سے تجارت نہیں ہو سکتی۔کیبنیٹ میٹنگ میں حماد اظہر صاحب نے کہا۔ پندرہ دن پہلے اقتصادی رابطہ کمیٹی میں بات ہوئی تھی۔ ان بات کا عمران خان صاحب کو علم تھا۔ بحر حال ہماری ساری حکومتیں امریکا سے خوف زدہ ہیں۔ اِدھر اُدھر کی باتیں کرکے ٹال مٹول کی پالیسیوں پر چلتی ہیں اور اندر سے امریکا کی ڈکٹیشن پر عمل کرتیں ہیں۔اصل بات یہ ہے کہ امریکی احکامات پر عمل کرتے ہوئے عرب دوستوں کے ذریعے پاکستان اوربھارت بیک ڈور پالیسی چل رہی ہے۔ اسی بنیاد پر کشمیر کی لائین آف کنٹرول پر گولہ باری بند ہوئی اور امن قائم ہوا۔ ٢٣ مارچ کو دہشت گرد مودی نے عمران خان کو مبادک باد کا خط لکھا۔ جواب میں عمران خان نے مودی کو خط لکھا۔ چند پہلے سیکورٹی امور پر دو روزہ سیمینار منعقد ہوا۔ اس کے بعد سپہ سالار نے پرانی باتیں بھول کرمستقبل کی بات کی۔ اس پر بھی عوام میں غم و غصہ بھڑکا۔ دال میں کچھ کالا ضرور ہے جسے عوام سے چھپایا جا رہا ہے۔
بھارت نے کبھی بھی پاکستان کو دل سے تسلیم نہیں کیا۔ کشمیر پر سیکڑوں مذاکرات ہوئے۔ بھارت نے وقت گزاری کی پالیسی پر پاکستان کو الجائے رکھا۔ امریکا بھارت کی مدد اور پاکستان کو نیچا رکھ کر بھارت تعلوقات بنانے کے مشورے دیتا رہا۔آج یہ حالت ہے کہ کشمیر کو آزاد کرنا تو قصہ پارینہ بن گیا۔ بھارت آزاد کشمیرپر حملہ کر کے واپس بھارت میں شامل کرنے کی دھمکیاں دے رہا ہے۔ کل پاکستان کو بھارت میں شامل کرکے اکھنڈ بھارت بنانے کا بھی اعلان کر دے گا۔پہلے بھی پاکستان پر جنگیں مسلط کر چکا ہے۔ اکھنڈ بھارت کے نقشے جاری کیے ہوئے ہے۔ برما سے کابل تک سارا علاقہ اکھنڈ بھارت میں شامل ہے۔ اپنے تعلیمی نصاب میں بچوں کو گائو ماتا کے کٹے ہوئے حصوں کو جوڑنے کے سبق پڑھاتا ہے۔
ان حالات میں کیا پاکستان کو اپنی اساس دو قومی نظریہ اسلامی نظریہ اسلام، پاکستان کا مطلب کیا ” لا الہ الا اللہ” سے دست بردار اور پیچھے ہٹ کر بھارت کے قومیں اوطان سے بنتی ہیں کے بیانیہ کو اپنا لینا چاہیے؟ بھارت کے سیکولر نظریہ کے لیے پاکستان میں موجود حضرات پہلے سے ٹھنڈے سوٹے لیے میدان میں اُترے ہوئے ہیں۔ آئے دن اسلامی کے شیدائی بانیِ پاکستان حضرت قائد اعظم محمد علی جناح کو ذبردستی اور جھوٹ کی بنیاد پر سیکولر ثابت کرتے رہتے ہیں۔یا پھر اپنی اساس پر قائم رہ کر بانی پاکستان حضرت قائد اعظم کے دو قومی نظریہ نظریہ اسلام پر قائم رہنا چا ہیے۔ پہلاایک راستہ تاریخ سے مٹ جانے کا راستہ ہے۔ دوسرا تاریخ میں زندہ رہنے کا ہے۔ زندہ قومیں ہمیشہ دوسرا راستی ہی اختیار کرتی ہیں۔جب قریش نے مدینہ کی نئی نویلی ریاست کوختم کرنے کے لیے سارے مشرکوں اور یہودیوں کو ملا کر ختم کرنے کی کوشش کی تو رسولۖ اللہ نے دوسرا راستہ اختیا کیا تھا۔قرآن میں بھی اللہ کا قاعدہ ہے کہ کمزروں سے طاقتوروں کو مٹاتا رہتا ہے۔جب طارق بن زیاد نے جب اسپین کی سرزمین پر اترنے کے بعد کشتیاں جلانے کا جو حکم دیا تھا تو پیچھے کوئی دفاحی لین بنائی تھی۔نہیں صرف اپنے اللہ پر بروسہ کیا تھا۔
دیکھیں! کشمیر پاکستان کی تکمیل کا نا مکمل ایجنڈا ہے۔ پاکستان کشمیر کے بغیر مکمل نہیں۔ کشمیر جب پاکستان ملے گا تو ہمالیہ کی وجہ سے پاکستان کی شمالی سرحد محفوظ ہو جائے گی۔پاکستان میں پانی کشمیر کی طرف سے آتا ہے۔ بھارت اسے مکمل روکنے کی کوششیں کر رہا ہے۔ جس سے پاکستان بنجر بن جائے گا۔ بھارت باقی کچے پاکستان کو بارشوں کے سیزن میں پانی چھوڑ کر ڈبو دے گا۔ کشمیر مذہبی، ثقافتی، تہذیبی، علاقائی ہر طرح سے پاکستان کا حصہ ہے۔سارے ذمینی راستے پاکستان سے کشمیر کی طرف جاتے ہیں۔سارے دریا کشمیر سے پاکستان کی طرف بہتے ہیں۔اسی لیے بانی پاکستان حضرت قائد اعظم محمد علی جناحنے فرمایا تھا کہ کشمیر پاکستان کی شہ رگ ہے۔ بین الاقوامی طور پر بھی تقسیم ہند کے فار مولے کے تحت کشمیر کو پاکستان کے ساتھ ملنا ہے۔ تو عرض ہے کہ ہم اورپر ثابت کر چکے ہیں کہ امریکا پاکستان کا دشمن ہے۔ وہ کبھی بھی کشمیر کے مسئلہ پر پاکستان کی مدد نہیں کرے گا۔ اس لیے ہماری حکومتوں کو امریکا کے ایجنڈے پر چلنے سے بہتر کہ بانی ِپاکستان قائد اعظم کے ایجنڈے پر چلیں۔
قائد اعظم کے حکم پر پاکستانی فوج نے کشمیر پر حملہ کیا تھا۔ یہ ہے قائڈاعظم کا وژن کے وسائل کے بغیر کشمیر کے مسئلہ پر بھارت سے بھڑ گئے تھے۔ مگر ہماری بزدل حکومتیں کہتی ہیں کہ پھر پاک بھارت جنگ چھڑ جائی گی۔بزدل حکمرانوں اپنے علاقے واپس لینے کے لیے ضرورت پڑھے توجنگ چھیڑنی پڑتی ہے۔کیا آزر بھائجان نے اپنا علاقہ نگار اگوہ واپس لینے کے لیے جنگ نہیں چھیڑی۔ کیا ہمارے پڑو س میں فاقہ کش افغانی پہلے برطانیہ، پھر روس اور اب امریکا سے جنگ کر کے باہر سے آئے ہوئے دشمنوں کو اپنے ملک سے نکال نہیں رہے۔ اس لیے معذرتانہ رویہ کی بجائے تحریک انصاف کی حکومت کو بھارت کو کہہ دینا چاہیے کہ مذاکرات شروع کرنے سے پہلے کشمیر کو متنازہ علاقہ تسلیم کرے۔ جیسے اقوام متحدہ میں بھی قراردادیں موجود ہیں۔ اس لیے تو اقوام متحدہ نے دونوں طرف اپنے فوج ابزرورز لگا رکھے ہیں۔
بھارت کہتا ہے کہ کشمیر کے ہندو راجہ نے بھارت سے الحاق کی درخواست کی۔ پاکستان کو بھی مطالبہ کرنا چاہیے کہ حیدر آبا دکی ریاست کے مسلمان سربراہ نے پاکستان کے ساتھ شامل ہونے کی درخواست دی تھی۔لہٰذا بھارت کو حیدر آباد سے دست بردار ہو کر پاکستان کے حوالے کرنا چاہیے۔ اسی جونا گڑھ کی ریاست کی بات بھی ہے۔اس سے بھی بھارت دسبر دار ہونا چاہیے۔بھارت نے مشرقی پاکستان پرجارحیت کی تھی۔ اس لیے پاکستان بھی کشمیر آزاد کرانے کے لیے فوج کشی کرنے کا حق محفوظ رکھتا ہے۔ کیا یہ مطالبات بھارت کے سامنے رکھنے کی پیپلز پارٹی، نون لیگ اور اب تحریک انصاف کی بزدل قیات میں جرأت ہے۔نہیں ہر گز نہیں!۔یہ جرأت صرف اور صرف اُس جماعت میں ہو سکتی ہے جو بانی پاکستان کے دوقومی نظریہ اور نظریہ اسلام کی صحیح محافظ جانشین ہے۔
نظر دوڑھراتے ہیں تو پاکستان میں صرف جماعت اسلامی ہی نظر آتی ہے۔ جو کرپشن فری ہے۔ جو نڈر ہے دشمنوں کی آنکھوں میں آنکھیں ڈالنے کی جرأت رکھتی ہے۔جو پاکستان میں گو امریکا گو کی مہم چلانے کی جرأت والی ہے۔ جس کے امت مسلمہ میں اثرات ہیں اور اس کا درد اپنا درد سمجھتی ہے۔ جس کی دستوری مہم سے قرادار پاکستان آئین کا حصہ بنی تھی۔ جس کی کوششیں اور مشترکہ جد و جہد سے پاکستان کا موجودہ ١٩٧٣ء کا اسلامی آئین بنا۔ جو پاکستان اور دنیا میں اسلامی قدروں کی محافظ ہے۔ جس کے بانی سید ابو الاعلی مودودی کو مفکر پاکستان حضرت شیخ علامہ محمد اقبال نے حیدر آباد، اس کے آبائی وطن سے، اللہ کی رہ میں ہجرت کر کے پنجاب کے ایک چھوٹے سے قصبے پٹھان کوٹ جمال پور میں اللہ کے دین کو غالب کرنے کے لیے بھلایا تھا۔ پھر جس نے اس کام کے لیے ١٩٤١ء میں جماعت اسلامی کی بنیاد رکھی۔جو اب تن آور درخت بن چکی ہے۔
صاحبو! کشمیر کو پاکستان سے ملانے کی ،نہ پیپلز پارٹی، نہ نون لیگ اور نہ ہی تحریک انصاف کی حکومتوں کے بس کی بات نہیں۔ یہ تو کور ایشوکشمیر کو ایک طرف رکھ کر بھارت سے امریکا کے کہنے پر آلو ،پیاز، چینی اور کپاس کی تجارت کرنے کی باتیں کرتے رہتے ہیں۔لہٰذا پاکستانی عوام کو اب جماعت اسلامی کو اقتدار میں لانا چاہیے ۔جماعت اسلامی پاکستان میں اسلامی نظام چاہنے والی ٩٠ فی صد خاموش عوام اور بانی پاکستان قائد اعظم کے وژن کی امین اور اس پر عمل کر کے پاکستان کو اسلامی بنانے کے لیے ١٩٤١ء سے کوششیں کر رہی ہے۔ یہ پاکستانی عوام کی امنگوں پرا ُترنے کی صلاحیت اور ورک بھی رکھتی ہے۔کشمیر کو پاکستان میں ملانے اور تکمیل پاکستان کا نامکمل ایجنڈا جماعت اسلامی ہی پورا کر سکتی ہے۔ امریکا سے خوف زدہ حکمران اور امریکی ایجنڈے پر چلنے والی پاکستانی حکومتیں یہ کام نہیں کر سکتیں۔