تحریر : علی عمران شاہین مقبوضہ کشمیر میں بھارتی ظلم و دہشت گردی کی آندھی ایک مرتبہ پھر تیز ہے۔قائد کشمیر جناب سید علی گیلانی کی نئی دہلی سے سرینگر آمد کے موقع پر ان کے استقبال کیلئے حیدرپورہ میں ہزاروں کشمیری جمع ہوئے تو کئی شرکاء نے پاکستانی پرچم اٹھا رکھے تھے تو کئی شرکاء نے پاکستانی پرچم سے مشابہ لباس زیب تن کر رکھے تھے۔ اس استقبالیہ ریلی کی قیادت ممتاز حریت رہنما اور کشمیری نوجوانوں کے دلوں کی دھڑکن مسرت عالم کر رہے تھے۔ انہوں نے ہزاروں نوجوانوں کی موجودگی میں کشمیر کی آزادی کے حق اور پاکستان سے الحاق کے نعرے لگائے اور ساتھ ہی یہ نعرہ بھی لگایا ”حافظ سعید کا کیا پیغام؟ کشمیر بنے گا پاکستان” اس جلوس اور ان نعروں نے بھارت میں ایک بھونچال کی کیفیت پیدا کر دی اور پھر حریت رہنمائوں پر غداری کے مقدمے درج کر کے انہیں نظربند کر دیا گیا۔ اس کے بعد سارے مقبوضہ کشمیر میں لامتناہی مظاہروں اور ہڑتالوں کا سلسلہ شروع ہو گیا جن میں دو نوجوان شہید اور درجنوں زخمی ہوئے۔
احتجاج کرنے والے کشمیریوں نے بھارتی پرچم جلائے تو ساتھ ہی مسرت عالم کو گرفتار کر کے سات دن کے لئے ریمانڈ پر پولیس کے حوالے کر دیا گیا۔بھارتی وزیر داخلہ راج ناتھ نے کھل کر کہا کہ مسرت عالم کو اب جیل میں ہی رہنا پڑے گا۔دوسری طرف اب سید علی گیلانی، میر واعظ عمر فاروق، شبیر احمد شاہ سمیت لگ بھگ سارے ہی کشمیری قیادت قید میں ہیں تو یاسین ملک بھی جیل میں ہیں تو کبھی جیل سے باہر۔ قصبہ ترال میں دو نوجوانوں کی شہادت کے بعد ہفتہ بھر کی ہڑتال بھی مسلسل رہی۔ یہ سب کچھ اس مقبوضہ کشمیر میں ہو رہا ہے جو گزشتہ سال کے تباہ کن سیلاب سے پہلے ہی بری طرح تباہ و برباد ہوا پڑا ہے، جہاں اتنی بڑی سیلابی تباہی کے بعد نئی دہلی قابض حکومت نے کشمیریوں کی ذرہ بھر مدد نہیں کی،
البتہ ہر لمحہ، ہر وقت ظلم و جبر اور تشدد ان کے لئے تیار رہتا ہے۔ سیلاب سے لٹے پٹے ان کشمیریوں پر اندھا دھند مظالم ڈھائے جا رہے ہیں لیکن پاکستانی دفتر خارجہ کے علاوہ ارباب اقتدار و اختیار ہی نہیں حکومت کیلئے تڑپتی مرتی سیاسی پارٹیوں میں سے بھی کسی کو توفیق نہیں کہ کشمیریوں کے حق میں ایک بیان ہی دے دیں۔ یہ وہی کشمیری ہیں کہ جو پاکستان کی محبت میں جانوں کے نذرانے اس حال میں دے رہے ہیں کہ ان کی جنت نظیر وادی دنیا کی سب سے بڑی جیل کا منظر پیش کر رہی ہے۔ وہ دس لاکھ بھارتی فورسز کی موجودگی میں جانوں کی پروا نہ کرتے ہوئے پاکستانی پرچم لہراتے اور پاکستان سے الحاق کے نعرے بلند کرتے ہیں لیکن پاکستان میں صورتحال اس کے بالکل الٹ ہے۔ لگتا ہے کہ کشمیری جس پاکستان کو پکار رہے ہیں، وہ زندہ انسانوں کا نہیں بلکہ قبرستانوں میں دفن مردوں کا کوئی ملک ہے۔
United Nation
حیرانی اقوام عالم، اقوام متحدہ اور انسانی حقوق کے نام پر بنے اداروں پر نہیں کہ وہ تو بنے ہی ہماری دشمنی اور خاتمے کیلئے ہیں۔ حیرانی تو ان لوگوں پر ہے جنہیں اب تک اس بات کی فکر کھائے جا رہی ہیں کہ ان کی فوج کو کہیں سعودی عرب کے دفاع کیلئے نہ بھیج دیا جائے۔ وہ سبھی اپنی اپنی آواز میں لامتناہی شور مچا رہے ہیں کہ ”ہم کرائے کی فوج نہیں، ہمیں اپنی پہلے فکر کرنی چاہئے ،ہم پہلے ہی مصیبت میں پڑے ہیں، غیرجانبدار رہنا چاہئے” اور نہ جانے کیا کیا۔؟سعودی عرب کی لازوال دوستی، بے پناہ مدد وتعاون اور ہر موقع پر سب سے آگے بڑھ کر پاکستان کا ہاتھ تھامنا ،کسی کو یاد نہیں… چلئے ،اس سب کو چھوڑیئے۔ ہم ان سیاستدانوں سے یہ پوچھنا چاہتے ہیں کہ وہ کشمیریوں کی مدد کیلئے نہیں پہنچ سکتے تو نہ سہی، ان کی مدد و حمایت میں بیان ہی جاری کر دیجئے۔
دن رات قائداعظم کے فرمودات سنانے والوں کو کیا یہ یاد نہیں کہ قائداعظم نے سرینگر میں بھارتی فوج کی آمد کا سنتے ہی پاک فوج کو اس بات کا حکم دیا تھا کہ وہ فوری کشمیر میں داخل ہو کر بزور طاقت کشمیر کو آزاد کروائے۔ اس وقت ہماری فوج کا سربراہ ایک انگریز جنرل گریسی تھا، اس نے حکم ماننے سے انکار کیا کیونکہ انگریز اور ہندو آپس میں ہر لحاظ سے ایک تھے۔ لیکن قائداعظم بانی پاکستان کا یہ حکم تو اب بھی موجود ہے۔ اگر اس وقت ان کا حکم پورا نہیں ہوا تو اب اس حکم کو فوری پورا کیا جائے اور کشمیر کو بذریعہ طاقت آزاد کروایا جائے۔
بانی پاکستان محمد علی جناح نے کشمیر میں فوج داخل کر کے خطے کو آزاد کروانے کا حکم اس حال میں دیا تھا کہ وہ خود انتہائی لاغر و کمزور تھے۔ ملک میں لاکھوں لٹے پٹے مہاجرین کا بوجھ آ رہا تھا۔ ہر طرف قتل و غارت گری میں لاکھوں مسلمانوں کے خون کی ندیاں بہ رہی تھیں۔ انگریزوں نے جاتے ہوئے سارا ایمونیشن، خزانہ، اسلحہ، صنعت و حرفت بھارت کو دے دی تھی اور پاکستان ہر لحاظ سے بے دست و پا تھا۔ کیا ہمارے حالات 1947ء سے بھی زیادہ گئے گزرے ہیں کہ ہم قائداعظم کے حکم کو پورا نہیں کر سکتے۔ اگر ایسا نہیں تو پھر ہمیں اس پاکستان پر حکومت کرنے یا اس کے دعویدار بننے کا کیا حق ہے۔؟ کشمیری عوام تو ان سیاستدانوں کی محبت میں پاکستان سے الحاق کے نعرے نہیں لگاتے ہیں۔ وہ تو اس پاکستان کو جانتے ہیں جہاں حافظ محمد سعید اور ان کے رفقاء جیسے لوگ ان کی آزادی کیلئے سال ہا سال سے اپنی صلاحیتیں صرف کئے ہوئے ہیں۔
Hafiz Saeed
اسی لئے تو مقبوضہ کشمیر کی خواتین کی رہبر محترمہ آسیہ اندرابی بار بار کہہ اٹھتی ہیں کہ حافظ محمد سعید ہمارے عظیم محسن ہیں۔ ہم انہیں حقیقی مددگار سمجھتے ہیں، سید علی گیلانی کہہ اٹھتے ہیں کہ ہم حافظ محمد سعید سے مدد لینے کو تیار ہیں۔ کشمیری سرینگرسمیت جگہ جگہ باربار جماعة الدعوة کے پرچم لہراتے ہیں۔ وہ تو سمجھتے ہیں کہ وہ اس ملک کے ساتھ ملنے کیلئے جانوں پر کھیل رہے ہیں جہاں حافظ محمد سعید جیسے لوگ دن رات ان کے حق میں آواز بلند کر رہے ہیں۔سعودی عرب کیلئے فوج بھیجنے میں رکاوٹیں ڈالنے اور اسی معاملے پر زمین آسمان ایک کر دینے والے اگر اتنے ہی محب وطن ہیں تو انہیں کشمیریوںکی چیخ پکار سنائی کیوں نہیں دیتی…؟
پاکستان کے اقتدار اور پھر پیٹ کی آگ بجھانے کیلئے لوٹ مار کرنے والے سیاستدانوں سے اتنا عرض ہے کہ وہ اس ملک کے جغرافیے کا بھی کچھ سوچ لیں لگتا یوں ہے جیسے سبھی نے ”ہنوز دلی دور است” کا سبق پڑھ رکھا ہے اور سب مرغی کے سارے سونے کے انڈے ایک ہی بار حاصل کرنے کے لئے اسے ذبح تک کرنے پر تلے بیٹھے ہیں۔کشمیر پاکستان کی شہ رگ ہے، کیونکہ یہیں ہمارے سارے دریائوں کا منبع ہے اور یہیں اب بھارت ڈیم بنا کر ہمیں صحرا میں تبدیل کر کے بھوکا پیاسا مارنے میں مصروف ہے۔ ہم یہ کہنے پر مجبور ہیں کہ اگر خدانخواستہ پاکستان نہ ہوا تو ان سیاستدانوں کا یہ کروفر اور لیڈریاں اور چمک کہاں رہے گی؟
جن ملکوں میں ہمارے سیاستدانوں نے بنک اکائونٹ کھول رکھے ہیں اور گھر بنا رکھے ہیں وہاں تو انہیں عام شہری سے زیادہ درجہ کبھی نہیں ملے گا تو پھر اس پاکستان اور اس پاکستان کی شہ رگ کی فکر کیوں نہیں؟دنیا کی تاریخ ایک عجیب منظر دیکھ رہی ہے کہ اب سب سے بڑا محسن سب سے بڑے کٹہرے میں کھڑا مشکل کی گھڑی میں اپنے دوست سے طعن و تشنیع کے نشتر سہ رہا ہے اور پاکستان پر جانیں قربان کروانے والے کشمیری اس وقت کو ترس رہے ہیں جب پاکستانی سیاسی قیادت ان کے حق میں بولے گی۔ سعودی عرب نے پہلے بھی اپنا دفاع کیا، اسلام کا بھی دفاع کیا۔انہوں نے یمن کا معرکہ بہت حد تک سر کر لیا ہے، باقی بھی کر ہی لیں گے، لیکن ہم اس کے بعد کہاں جائیں گے؟ سعودی عرب کو بھی کھو دیا، بھارت کے خلاف کشمیروں کی بھی مدد نہ کی تو تاریخ میں کہاں کھڑے ہوں گے؟ ہمارے ملک کی کہانی کیا ہو گی…؟ یہ نازک گھڑی ہے…اس لئے فوری کچھ بہتر فیصلہ کرنا ہو گا وگرنہ ”تمہاری داستاں بھی نہ ہو گی داستانوں میں”۔