کشمیر (اصل میڈیا ڈیسک) بھارت میں کشمیر کی معروف علیحدگی پسند تنظیم حریت پر ممکنہ پابندی کے بارے میں چہ مگوئیاں ہو رہی ہیں۔ تاہم کشمیر کے حریت رہنما اسے بھارتی حکومت کی دباؤ کی پالیسی قرار دیتے ہیں۔
بھارت کے بیشتر خبر رساں اداروں اور میڈیا کے مطابق نریندر مودی کی حکومت نے کشمیر میں آزادی کی حامی اور علیحدگی پسند تحریک چلانے والی تنظیم حریت پر پابندی عائد کرنے کا فیصلہ کر لیا ہے۔ حالانکہ حکومت کی جانب سے اس سلسلے میں ابھی تک کوئی اعلان نہیں ہوا ہے تاہم ان خبروں کی تردید بھی نہیں کی جا رہی ہے۔
کسی بھی تنظیم پر پابندی سے قبل آخری فیصلہ وزارت داخلہ کرتی ہے اور حتمی فیصلے سے قبل اس سے متعلق تمام رپورٹوں کا جائزہ لیا جاتا ہے۔ مودی حکومت نے کشمیر میں جماعت اسلامی پر پہلے ہی پابندی عائد کر دی تھی اور اگر حریت کو بھی ممنوعہ تنظیم قرار دے دیا جاتا ہے تو حریت رہنماؤں کے لیے کسی بھی سرگرمی میں حصہ لینا بہت مشکل ہو جائے گا۔
اطلاعات کے مطابق مودی حکومت نے انسداد دہشت گردی کے قوانین کے تحت سید علی گیلانی کی قیادت والے سخت گیر حریت دھڑے اور میر واعظ عمر فاروق کی قیادت والے اعتدال پسند گروپ پر پابندی عائد کرنے کا فیصلہ کر لیا ہے جس کا ایک مقصد پاکستان کو بھی سخت پیغام دینا ہے۔
بھارتی میڈیا میں اس حوالے سے جو خبریں شائع ہو ئی ہیں اس میں خفیہ ایجنسیوں کے حوالے سے لکھا گیا ہے کہ پاکستان اور بعض دیگر ملکوں میں حریت کے کہنے پر جن میڈیکل طلبہ کو داخلے ملتے ہیں ان کی مدد سے حریت طلبہ سے رقوم حاصل کرتی ہے اور ان پیسوں کا استعمال دہشت گردی کے مقاصد کے لیے کیا جاتا ہے۔
لیکن حریت نے حکومت کے ان تمام الزامات کو یہ کہہ کر مسترد کر دیا ہے کہ یہ حکمرانوں کی جانب سے تنظیم کے خلاف ایک جھوٹے پروپیگنڈے کے سوا کچھ بھی نہیں ہے۔ میر واعظ عمر فاروق کے معتمد خاص رحمان شمس نے ڈی ڈبلیو سے بات چیت میں کہا کہ جن طلبہ کو بھی حریت کی سفارش پر داخلہ ملتا ہے اس میں بیشتر غریب خاندان سے تعلق رکھتے ہیں۔
ان کا کہنا تھا،’’اس کی تفتیش کروائی جا سکتی ہے جس سے بات صاف ہو جائے گی۔‘‘ ان کا کہنا تھا کہ بھارتی حکومت کے تمام اقدامات جمہوریت کے منافی ہیں۔ انہوں نے کہا،’’ بیٹھ کر بات کرنے سے بات بنتی ہے، لیکن وہ آواز دبانے کا کام کر رہے ہیں یہ تو غیر جمہوری طریقہ کار ہے۔‘‘ ان کا کہنا تھا کہ ان کی تنظیم کا جو بورڈ تھا اسے نہیں ہٹا یا گیا ہے اور اس حوالے سے بعض خبریں گمراہ کن ہیں۔ ان کے بقول،’’ یہ سب حریت پر دباؤ ڈالنے کی کوشش ہے۔‘‘ حریت کارکن کے مطابق کشمیر میں گزشتہ دو برسوں سے جس طرح کی پابندیاں عائد ہیں اس میں تو ویسے بھی کسی طرح کی سیاسی سرگرمی ممکن نہیں ہے۔
اطلاعات کے مطابق حکومت حریت سے وابستہ بچے ہوئے کارکنان کو بھی انسداد دہشت گردی کے قوانین کے تحت گرفتار کر کے جیلوں میں بھیجنے کا ارادہ رکھتی ہے۔ حالانکہ بیشتر رہنما پہلے سے ہی جیلوں میں قید ہیں اور بہت سے دیگر گھروں میں نظر بند ہیں جنہیں کسی سے ملنے کی بھی اجازت نہیں ہے۔
دو برس قبل جب بھارت نے کشمیر کی دفعہ 370 کا خاتمہ کر کے اسے مرکز کے زیر انتظام دو علاقوں میں تقسیم کر دیا تھا تب سے کشمیر میں حریت کی تمام سرگرمیاں بالکل ٹھپ پڑی ہیں اور ایسا لگتا ہے کہ حکومت نے اسے کشمیر کے صفحے سے بالکل مٹا کر رکھ دیا ہے۔
سید علی گیلانی دو برس سے بھی زیادہ عرصے سے گھر میں نظر بند ہیں اور انہیں کسی سے بھی ملنے کی اجازت نہیں ہے اسی لیے تب سے ان کا کوئی بیان تک سامنے نہیں آیا ہے۔ میر واعظ عمر فاروق کے ساتھ بھی تقریبا یہی صورت حال ہے۔
گزشتہ ہفتے تنظیم کے ایک بزرگ حریت رہنما پروفیسر عبد الغنی بھٹ نے ڈی ڈبلیو اردو کے ساتھ بات چیت کے دوران اسی سے متعلق ایک سوال کے جواب میں کہا تھا کہ خاموشی کا مطلب یہ نہیں کہ حریت ختم ہو چکی ہے۔
ان کا کہنا تھا، ’’ حریت مستقبل ہے اور ایسا کیسے ممکن ہے کہ لوگ اپنے مستقبل سے جدا ہو جائیں۔ ہاں کشمیر کے لوگ حکمت عملی کے اعتبار سے کبھی کبھی خاموشی اختیار کر لیتے ہیں۔ لیکن جب تک تنازعہ کشمیر باقی ہے حریت بھی زندہ رہے گی۔‘‘
ایک وقت تھا جب مسئلہ کشمیر کے حل کے لیے بھارتی حکومتیں حریت رہنماؤں کو بات چیت کے لیے دہلی طلب کرتی تھیں۔ تاہم اب وقت یہ ہے کہ ان کے بیان تک میڈیا میں نہیں آتے ہیں۔