کشمیر (اصل میڈیا ڈیسک) کشمیر کی خصوصی آئینی حیثیت ختم کیے جانے کے بعد وہاں انسانی حقوق کی پامالی پر امریکی کانگریس کی جانب سے سخت تشویش کا اظہارکیا گیا ہے۔ ساتھ ہی بھارتی سپریم کورٹ نے بھی مودی حکومت کی سرزنش کی ہے۔
بھارتی سپریم کورٹ نے جموں و کشمیر میں عائد پابندیوں پر بھارت کی وفاقی حکومت کی سرزنش کرتے ہوئے پوچھا، ”اور کتنے دنوں تک آپ پابندیاں عائد کیے رکھنا چاہتے ہیں؟ اس بات کو دو ماہ سے زیادہ ہوچکے ہیں۔ آپ کو اس پر اپنا موقف واضح کرنا ہوگا یا دوسرے راستے تلاش کرنا ہوں گے۔”
یہ امر قابل ذکر ہے کہ نریندر مودی حکومت نے جموں و کشمیر کو حاصل خصوصی آئینی حیثیت کو پانچ اگست کو ختم کرنے کا اعلان کیا تھا۔ اس کے ساتھ ہی ریاست کو دو حصوں، جموں و کشمیر اور لداخ میں تقسیم کر کے اسے مرکز کے زیر انتظام علاقہ قرار دے دیا تھا۔ حکومت نے اس غیر معمولی اقدم سے پیدا شدہ ممکنہ صورت حال سے نمٹنے کے لیے وہاں سخت پابندیاں عائد کردی تھیں۔ متعدد افراد اور تنظیموں نے ریاست کی خصوصی آئینی حیثیت کو ختم کرنے اور وہاں عائد پابندیوں کے خلاف سپریم کورٹ میں مقدمات دائر کر رکھے ہیں اور عدالت انہی مقدمات کی سماعت کر رہی ہے۔
سپریم کورٹ نے دوران سماعت کہا، ”پابندیاں عائد کرنا حکومت کے دائرہ اختیار میں ہے لیکن اسے بہرحال اس فیصلے کا جائزہ بھی لینا ہوگا۔” سرکاری وکیل نے اس پر کہا کہ 90 فیصد پابندیاں ہٹا لی گئی ہیں اور ان کا روزانہ جائزہ بھی لیا جارہا ہے۔ اس پر سپریم کورٹ نے حکومت سے انٹرنیٹ پر عائد پابندیوں کے بارے میں بھی سوال کیا اور کہا کہ حکومت کو لوگوں کو کمیونیکیشن کا یہ ذریعہ فراہم کرنا ہوگا۔ سپریم کورٹ کے ججوں نے سرکاری وکیل کی اس دلیل کو بھی مسترد کردیا کہ انٹرنیٹ کو اس لیے بند رکھا گیا ہے تاکہ سرحد پار سے ہونے والی حرکتوں کو روکا جاسکے۔ بنچ نے کہا، ”ہمیں معلوم ہے کہ کیا کرنا ہے، ہم نے حکم دے دیا ہے اور اب ہم اسے بدلنے والے نہیں ہیں۔”
اس دوران بھارتی وزارت خارجہ نے امریکی کانگریس کی خارجہ کمیٹی میں کشمیرکے حوالے سے بھارت کے فیصلے اور وہاں انسانی حقوق کی مبینہ خلاف ورزیوں پر ہونے والی بحث پرناراضگی کا اظہار کیا گیا ہے۔
بھارتی وزارت خارجہ کے ترجمان رویش کمار نے میڈیا سے بات چیت کرتے ہوئے کہا کہ کشمیر کے حوالے سے امریکی کانگریس کے بعض اراکین نے افسوس ناک تبصرے کیے ہیں۔ رویش کمار کا کہنا تھا کہ ان تبصروں سے ان امریکی اراکین کانگریس کی ‘محدود فہم‘ کا پتہ چلتا ہے اور انہیں ہندوستانیوں کو حاصل بنیادی حقوق اور دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت کے کام کرنے کے طریقہ کا اندازہ نہیں ہے۔
ان کا مزید کہنا تھا، ”کمیٹی کے اراکین کو بھارت کے فیصلے پر نکتہ چینی کرنے کے بجائے سرحد پار سے کشمیر میں ہونے والی اسپانسرڈ دراندازی کی مذمت کرنا چاہیے تھی۔ یہ افسوس ہے کہ کچھ اراکین نے کشمیر کے عوام کی بہتری اور کشمیر میں امن و سکون برقرار رکھنے کے مقصد سے اٹھائے گئے اقدامات پر سوال کھڑے کیے ہیں۔”
بھارتی وزارت خارجہ نے امریکی کانگریس کی خارجہ کمیٹی میں کشمیرکے حوالے سے بھارت کے فیصلے اور وہاں انسانی حقوق کی مبینہ خلاف ورزیوں پر ہونے والی بحث پرناراضگی کا اظہار کیا گیا ہے۔
خیال رہے کہ امریکی کانگریس کی ذیلی کمیٹی کے سامنے جمعرات 24 اکتوبر کو جنوبی ایشیا میں انسانی حقوق کی صورتحال پرسماعت کے موقع پر کشمیر میں انسانی حقوق کی صورتحال پربحث و مباحثہ ہوا تھا۔ اس میں بھارتی گواہ آرتی ٹیکو سنگھ نے کہا تھا کہ میڈیا میں کشمیر کی اصل صورتحال پیش نہیں کی جا رہی۔ ایک اور گواہ ڈاکٹر نتاشا کور کا کہنا تھا، ”ہم جس چیز کے خواہش مند ہیں وہ ہیں انسانی حقوق، جمہوریت، اور آزادی۔ آزادی کا معاملہ یہ ہے کہ برسوں سے، لوگوں کو محض پرامن طور پر جمع ہونے کی پاداش میں، متعدد بار گولیوں کا نشانہ بنایا گیا۔ لازم ہے کہ (بھارت کی) حکومت اس بات کو تسلیم کرے اور کہے کہ ہم معافی چاہتے ہیں۔‘‘
یہاں تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ امریکا پہلے بھی کشمیر میں انسانی حقوق کا معاملہ اٹھاتا رہا ہے۔ گوکہ بھارت کا کہنا ہے کہ یہ اس کا داخلی معاملہ ہے لیکن اگر انسانی حقوق کی خلاف ورزی ہوگی تو آوازیں تو ضرور اٹھیں گی۔ اور امریکی کانگریس میں کشمیر پر بحث سے یہ بات بھی ایک بار پھر واضح ہوگئی ہے کہ یہ ایک عالمی مسئلہ ہے۔ یہ امر بھی قابل ذکر ہے کہ امریکی انتظامیہ کے افسران کا ایک وفد کشمیر جانا چاہتا تھا لیکن نئی دہلی نے یہ کہتے ہوئے اجازت دینے سے انکار کردیا کہ کشمیر جانے کے لیے یہ مناسب وقت نہیں ہے۔