تحریر : محمد اشفاق راجا مقبوضہ کشمیر میں بھارتی فوج کے وحشیانہ مظالم کے باعث اس وقت ظلم و بربریت کی انتہا کر دی گئی جب بھارتی فوج کے زیراستعمال ممنوعہ پیلٹ گن کے چھرے لگنے سے گیارہ سالہ طالب علم شہید ہوگیا جس کے بعد شروع ہونے والے احتجاجی مظاہروں کے خلاف بھارتی فوج اور پولیس کی ظالمانہ کارروائیوں سے مزید دو سوافرادزخمی ہوگئے۔ گزشتہ روزبھارتی فوج کے مظالم کے خلاف حریت رہنمائوں کی اپیل پر مقبوضہ وادی میں مکمل ہڑتال کی گئی تھی، وادی بھر میں کرفیو نافذ تھاتاہم لوگ ہرپابندی کو رد کرتے ہوئے سڑکوں پر آگئے اور پاکستانی پرچم لہراتے ہوئے بھارت مخالف اور آزادی کے حق میں نعرے لگائے۔ ۔وہ مقبوضہ کشمیر میں بھارتی سکیورٹی فورسز کی جانب سے انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کا معاملہ عالمی برداری کے سامنے اٹھائیں گے اور اقوام متحدہ سے سلامتی کونسل کی قراردادوں کے مطابق کشمیری عوام کو حق خود ارادیت دینے سے متعلق وعدوں کی پاسداری اور اس پر عمل درآمد کا مطالبہ کریں گے۔اْدھر امریکہ نے وزیر اعظم نواز شریف کے دورے سے قبل ایک بار پھر واضح کیا ہے کہ مسئلہ کشمیر پر اس کی پالیسی میں کوئی تبدیلی نہیں آئی۔ پاکستان اور بھارت دوطرفہ طور پر مسئلہ کشمیر کاحل نکالیں۔
مقبوضہ کشمیر میں جولائی میں شروع ہونے والی احتجاجی تحریک کے بعد سے لوگوں کی آمدو رفت اور انٹرنیٹ کے استعمال پر سخت پابندیاں عائد ہیں اورجاری انتفاضہ میں شہیدوں کی تعداد 106ہوگئی ہے۔ بھارتی جارحیت کا یہ عالم ہے کہ بچوں اور خواتین کو بھی نہیں بخشا جا رہا اور آئے روز پیلٹ گن کے چھروں سے بے گناہ کشمیریوں کی ا?نکھیں اور جانیں ضائع ہو رہی ہیں۔ اتوار کی صبح مقبوضہ کشمیر کے دارالحکومت سری نگر کے اڑی سیکٹر میں بارہ مولا میں بھارتی فوج کے بریگیڈ ہیڈ کواٹر پر مسلح حملے میں سترہ اہلکاروں کی ہلاکت کی خبر بھی آئی ہے لیکن ابھی تک یہ واضح نہیں ہوا کہ آیا یہ حملہ بھارت نے خود کرایا یا پھر یہ کشمیر میں جاری بھارتی مظالم کے جواب میں مقامی تحریکوں کا ردعمل تھا۔ اس واقعہ کے بعد بھارتی وزیر داخلہ راج ناتھ سنگھ نے اپنا دورہ امریکہ اور روس ملتوی کردیا۔یہ واقعہ ایک ایسے وقت میں پیش آیا جب اقوام متحدہ کے جنرل اسمبلی کے سالانہ اجلاس میں چند دن باقی ہیں۔ عین ممکن ہے بھارت اس واقعے کو دہشت گردی کا رنگ دینے کی کوشش کرے تاکہ خود کو مظلوم ثابت کرتے ہوئے عالمی برادری کو یہ باور کرا سکے کہ کشمیر میں ا?زادی کی کوئی تحریک نہیں چل رہی۔
اس سے قبل لائوس میں آسیان سربراہی کانفرنس میں بھی بھارتی وزیراعظم نے نام لیے بغیر پاکستان پر اپنی سرحدوں سے باہر دہشت گردی کی سرپرستی کا الزام لگایا۔ اسی قسم کا الزام وہ اس سے قبل چین میں منعقدہ جی ٹونٹی کانفرنس میں بھی لگا چکے ہیں۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے بھارت اپنے ایجنڈے پر پوری طرح سے سرگرم ہے اور کشمیر پر لچک دکھانے کو تیار نہیں۔ پاکستان کو یہ دیکھنا ہے کہ اس کے کیا فرائض ہیں اور اسے عالمی برادری کو کس طرح یہ باور کرانا ہے کہ کشمیر بھارت کا اٹوٹ انگ نہیں بلکہ یہ مسئلہ صرف اور صرف کشمیری عوام کی رائے اور اقوام متحدہ کی قراردادوں کے مطابق حل میں مضمر ہے۔ یہ امر خوش آئند ہے کہ وزیراعظم نے نیویارک روانگی سے قبل مظفر آباد میں کل جماعتی حریت کانفرنس کے وفد سے ملاقات کی اور کہا کہ پاکستان حق خودارادیت دلانے کیلئے کشمیریوں کی سیاسی، اخلاقی اور سفارتی سطح پر حمایت جاری رکھے گا۔وزیراعظم نے کہا کہ وہ جنرل اسمبلی میں مسئلہ کشمیر اور کشمیریوں پر ڈھائے جانے والے مظالم کو بھرپور طریقے سے اٹھائیں گے۔
Nawaz Sharif
وزیراعظم نے جن جذبات کا اظہار کیا بلا شبہ وہ تمام پاکستانی اور کشمیری عوام کے دلوں کی آواز ہیں ‘کشمیری عوام آزمائش کی ان گھڑیوں میں پاکستان کی طرف دیکھ رہے ہیں’ ان کا کوئی بچہ یا جوان شہید ہوتا ہے تو وہ پاکستانی پرچم میں لپیٹ کر دفن کیا جاتا ہے’ پاکستان کی آزادی کے قومی دن پر بھی ان کے ہاتھوں میں پاکستان کے پرچم ہوتے ہیں اور وہ پاکستان زندہ باد کے نعرے لگاتے ہیں۔وزیراعظم کو صرف جنرل اسمبلی میں مسئلہ کشمیر پر توانا آواز ہی نہیں اٹھانی چاہیے بلکہ دنیا بھر میں بھرپور لابنگ اور جامع سفارت کاری کا بھی اہتمام کرنا چاہیے جس کے ذریعے کشمیریوں کی آواز کو پوری دنیا تک ٹھوس انداز میں پہنچایا جا سکے۔صرف کشمیر ہی نہیں بلکہ پاکستانی سرحدی علاقوں اور لائن آف کنٹرول پر بھارتی گولہ باری اوربھارتی دراندازی کے واقعات دنیا کے سامنے رکھے جانے چاہئیں۔ اسی طرح ہمسایہ ملک افغانستان کے ساتھ مل کر بھارت بلوچستان میں جس قسم کی سازشیں’ ریشہ دوانیاں اور دہشت گردی کی کارروائیاں کر رہا ہے’ انہیں بھی جنرل اسمبلی کے اس اہم اجلاس کے موقع پر آشکار کرنا چاہیے تاکہ بھارت کو نہ صرف مقبوضہ کشمیر میں ہٹ دھرمی اور طاقت کے وحشیانہ استعمال سے باز رکھاجا سکے بلکہ بلوچستان اور دیگر علاقوں میں اس کی سازشوں کو پنپنے سے روکا جائے۔
امریکہ یہ کہہ کر اپنی ذمہ داری سے سبکدوش نہیں ہو سکتا کہ بھارت اور پاکستان خود یہ مسئلہ حل کریں۔ مشرقی تیمور اور سوڈان کے معاملے میں تو اس نے ایسا رویہ اختیار نہ کیا تو پھر مسئلہ کشمیر پر وہ کیوں اپنی آنکھیں پھیررہا ہے۔ امریکہ اپنا سارا وزن بھارت کے پلڑے میں نہیں ڈال سکتا اور نہ ہی کشمیر کو نظر انداز کرنا اتنا آسان ہے’ اس لئے کہ دونوں ایٹمی ممالک ہیں اور خطے میں طاقت کے توازن اور معاشی استحکام کے لئے اشد ضروری ہے کہ تمام تنازعات مذاکرات اور گفت و شنید کے ذریعے حل کئے جائیں۔ طاقت کا جتنا بھی استعمال کیا جائے بہرحال اس کا انجام مذاکرات پر ہی منتج ہوتا ہے۔
بھارت اگر سمجھتا ہے کہ وہ پاکستان پر دہشت گردی کے الزامات لگا کراور گمراہ کن پراپیگنڈے کے ذریعے مقبوضہ کشمیر میں جاری ریاستی دہشت گردی پر سے دنیا کی توجہ ہٹا دے گا تو یہ اس کی خام خیالی ہے۔ کشمیر کی موجودہ صورتحال کی تمام تر ذمہ داری بھارت پر عائد ہوتی ہے۔ بین الاقوامی برادری بھی کشمیر کو ایک متنازع مسئلہ قرار دے چکی ہے لہٰذا پاکستان کو چاہیے کہ وہ ہر اہم فورم پر مسئلہ کشمیر کو بھرپور انداز میں اجاگر کرے تاکہ کشمیریوں کے حق خور ارادیت کا خواب شرمندئہ تعبیر ہو سکے۔