تحریر : فاروق اعظم پانچ حرفوں کا مجموعہ لفظ کشمیر اب صرف ایک ریاست ہی نہیں بلکہ دنیا کی سب سے بڑی چھائونی کی حیثیت اختیار کر چکا ہے۔ ہمالیہ اور پیر پنجال کے پہاڑی سلسلوں کے درمیان واقع یہ سرسبز و شاداب وادی 67 برس سے بھارتی ظلم و جبر کی داستانیں رقم کر رہی ہے۔بھارت کشمیریوں کو دبانے کے لیے ہر حربہ آزما چکا ہے۔ انہیں لالچ بھی دیا گیا۔ مراعات بھی دی گئیں۔ جب نہ مانے تو خوف زدہ بھی کیا۔ مارا پیٹا بھی اور قید و بند کی صعوبتوں سے بھی گزارا گیا۔ لیکن کشمیری اپنے مطالبے سے باز نہ آئے۔ ان کا ایک ہی مطالبہ ہے کہ ہم اسلام کی نسبت سے پاکستان کے ساتھ الحاق چاہتے ہیں۔ ہمیں آزادی دی جائے۔ ہم بھارتی عملداری قبول نہیں کرتے۔
قانون آزادی ہند 1947ء کے تحت ہر ہندوستانی ریاست کو یہ اختیار دیا گیا تھا کہ وہ اپنی جغرافیائی حیثیت اور رعایا کی خواہشات کو مدنظر رکھتے ہوئے پاکستان یا بھارت میں سے کسی ایک کے ساتھ الحاق کر سکتی ہے۔ چونکہ ریاست جموں و کشمیر مسلم اکثریتی خطہ ہے۔ یہاں مسلمانوں کی آبادی اسی فیصد سے زائد ہے۔ 19 جولائی 1947ء کو سری نگر کے مقام پر ”آل جموں و کشمیر مسلم کانفرنس” نے پاکستان کے ساتھ الحاق کی قرارداد منظور کی۔ لیکن26 اکتوبر کو راجہ ہری سنگھ نے انتہائی عیاری سے کام لیتے ہوئے ” کشمیر بھارت الحاق کی دستاویز” پر دستخط کیے۔ بھارت نے اس نام نہاد دستاویز کو جواز بناکر موقع سے فائدہ اٹھاتے ہوئے 27 اکتوبر کو اپنی فوجیں کشمیر میں داخل کردیں۔ بھارتی فوج نے طاقت کے بل بوتے پر کشمیری مسلمانوں کو محکوم بنانے کی کوشش کی۔ جب پاکستان اور کشمیری عوام نے ردعمل کے طور پر جوابی کارروائی کی تو بھارت نے اقوام متحدہ کے دروازے پر دستک دی۔ سلامتی کونسل نے قرارداد منظور کی کہ استصواب رائے کے ذریعے کشمیری قوم کے مستقبل کا فیصلہ کیا جائے۔ لیکن چھ دہائیاں گزرنے کے باوجود اقوام متحدہ کی قراردادیں اب بھی عملدر آمد کی راہ تک رہی ہیں۔ دوسری طرف بھارت سر عام انسانی حقوق کو پامال کر رہا ہے۔
کشمیریوں پر انسانیت سوز مظالم ڈھا رہا ہے۔ اس وقت دس لاکھ سیکورٹی فورسز مقبوضہ وادی میں تعینات ہیں، گویا کہ ہر کشمیری کے سر پر ایک سپاہی بندوق تانے کھڑا ہے۔ لمحہ فکریہ یہ ہے کہ بھارت اقوام متحدہ کے استصواب رائے کے فیصلے کو قبول کرنے کے باوجود کشمیر کو اٹوٹ انگ سے تعبیر کر رہا ہے۔ گزشتہ ماہ اقوام متحدہ کے جنرل اسمبلی سے خطاب کرتے ہوئے وزیر اعظم نواز شریف نے اسی طرف اشارہ کرتے ہوئے واضح طور پر کہا تھا کہ ہم کشمیر کے مسئلے پر پردہ نہیں ڈال سکتے۔ اقوام متحدہ نے چھ دہائیاں قبل کشمیر میں رائے شماری کرانے سے متعلق قرارداد منظور کی تھی، لیکن جموں و کشمیر کے عوام تاحال اس وعدے کے پورا ہونے کے انتظار میں ہیں۔ جب تک اس کو کشمیریوں کی خواہشات کے مطابق حل نہیں کیا جاتا، ہم کسی صورت خاموش نہیں رہ سکتے۔ وزیراعظم نے اس بات پر بھی زور دیتے ہوئے کہا کہ کشمیر کے مسئلے میں فریق ہونے کے ناطے ہم کشمیری عوام کے حق خود ارادیت کی حمایت اور مدد جاری رکھیں گے۔ انہوں نے اقوام متحدہ سمیت عالمی برادری سے بھی اپیل کی پاکستان اور بھارت کے مابین نزاع کا باعث بننے والا بنیادی مسئلہ کشمیر کو فوری طور پر حل کیا جانا چاہئے۔
Narendra Modi
دوسری طرف بھارتی وزیراعظم نریندر مودی نے جنرل اسمبلی سے اپنے خطاب میں یہ کہہ کر پاکستان کے دوٹوک موقف پر نقب زنی کی کوشش کی کہ اقوام متحدہ میں باہمی تنازعات کو اٹھانے سے کوئی فائدہ نہیں ہوگا۔ گویا کہ مودی یہ جان چکے ہیں کہ اقوام متحدہ مشرقی تیمور اور جنوبی سوڈان جیسے علاقوں کی آزادی کے لیے ہی کردار ادا کرسکتی ہے۔ یا پھر بھارتی وزیراعظم تنازع کشمیر پر اپنی ہٹ دھرمی کا اظہار کر رہے تھے، جو اس سے قبل وہ اپنی انتخابی مہم کے موقع پر بھی اس بات کا واضح طور پر ان الفاظ میں اظہار کرچکے ہیں کہ ہم انسانیت، جمہوریت اور کشمیریت کے راستے پر چلیں گے، وہ راستہ جو ہمیں واجپائی نے دیا ہے۔ کشمیریت سے ان کی مراد جموں و کشمیر پر بھارتی غاصبانہ قبضے کا دوام ہے۔
مودی کی انسانیت اور جمہوریت کا مطالعہ اہل بصیرت گزشتہ تیرہ برس سے کرتے چلے آرہے ہیں۔ وہ موجودہ انتخابات کے نتیجہ میں وزارت عظمیٰ کا قلمدان سنبھالنے سے قبل2001ء سے مغربی ریاست گجرات کے وزیر اعلیٰ تھے۔ 2002ء میں انہی کے دورِ حکومت میں گجرات میں بدترین مسلم کش فسادات رونما ہوئے۔ جن میں مسلمانوں کو ہندو بلوائیوں نے بڑی بے دردی سے وحشیانہ تشدد کا نشانہ بنایا۔ اب کشمیر پر بھی ان کی متشددانہ ذہنیت کسی سے ڈھکی چھپی نہیں رہی۔ موجودہ صورت حال میں کشمیری ان دنوں دوہرے عذاب میں مبتلا ہیں۔ ایک طرف کشمیری قوم مسلسل بھارت کی محکومی میں پسی جا رہی ہے، تو دوسری طرف حالیہ تباہ کن سیلاب کے باعث وہ بڑی آزمائش سے دوچار ہے۔ بھارت سرکار جہاں ان کی خود مدد نہیں کر رہی، وہیں پر بیرونی امداد کے راستے بھی ان کے لیے بند کردیے گئے ہیں۔
اقوام متحدہ کی بے رخی اور بھارتی ہٹ دھرمی کے باوجود آج آزادی کشمیر کی تحریک جو اس قدر عروج پر ہے کہ بھارت کو ایک لمحہ بھی چین سے بیٹھنے نہیں دیتی، اس کے پیچھے حریت رہنمائوں کی کوششیں اور مجاہدین کی کاوشیں کارفرما ہیں۔ ”تحریک آزادی کشمیر” قربانیوں، جرأتوں، شہادتوں کی ایک لمبی داستان ہے، جو راہ حق کے شہداء کے خون سے عبارت ہے، جسے کسی صورت بھی فراموش نہیں کیا جا سکتا۔ کشمیر کی سیاہی سفیدی کی منتظر ہے۔ آج کشمیری مظلوم ضرور ہیں لیکن اپنی منزل سے دور نہیں۔ وہ یوم سیاہ اس یقین پر منا رہے ہیں کہ ظلم و جبر کی تاریک راتیں ڈھل کر رہیں گی اور کشمیر میں آزادی کا سپیدہ صحر جلد نمودار ہو گا۔ انشاء اللہ